مریم نواز کا عزم تحفظ جنگلی حیات
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
جنگلی حیات کسی بھی ملک کی قدرتی میراث کا وہ اثاثہ ہے جو نہ صرف حیاتیاتی تنوع کی علامت ہے بلکہ ماحولیاتی توازن، سیاحت، ادبیات اور ثقافت میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا بھر میں باشعور اقوام اسے قومی سرمائے کی حیثیت دیتی ہیں اور اس کے تحفظ کو قومی فریضہ تصور کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں، قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے مسلسل غفلت اور بےحسی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد قدرتی وسائل، خصوصاً جنگلی جانوروں اور پرندوں کی حفاظت کے لیے کچھ بنیادی اقدامات تو کیے گئے مگر یہ اقدامات ہمیشہ کاغذی حد تک محدود رہے۔ 1970 کی دہائی میں صوبائی سطح پر محکمہ وائلڈ لائف کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ تحفظ کے ساتھ ساتھ اس اہم شعبے میں ریسرچ اور نگرانی کا عمل بھی منظم کیا جا سکے۔ مگر اس محکمے کو مطلوبہ اختیارات، وسائل اور سیاسی حمایت کبھی بھی نہ مل سکی۔
جانوروں اور پرندوں کا ممنوعہ شکار، غیرقانونی خریدوفروخت اور نایاب جانوروں و پرندوں کی اسمگلنگ نے جنگلی حیات کو شدید خطرات سے دوچار کیا ہے۔ نتیجتاً چنکارا ہرن، دریائی ڈولفن، ہُوبرہ بسٹرڈ، سیاہ ریچھ، مارخور، چلتن مارخور اور دیگر نایاب اقسام کی جنگلی جانوروں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ان میں کئی اقسام عالمی سطح پر خطرے سے دوچار انواع کی فہرست میں شامل ہو چکی ہیں۔
جنوبی پنجاب میں وزیراعلیٰ مریم نواز کے وژن کے تحت شروع ہونے والا وائلڈ لائف کومبنگ آپریشن پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا اور سب سے وسیع آپریشن ہے۔ اس کارروائی میں محکمہ وائلڈ لائف نے نہ صرف غیرقانونی برڈ مارکیٹوں پر چھاپے مارے بلکہ آٹھ کے قریب جانوروں اور پرندوں سے بھرے ٹرک بھی قبضے میں لے لیے گئے ہیں۔ اس دوران مزاحمت کرنے والے عناصر سے نمٹنے کے لیے ریاستی عملداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آٹھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب حکومت نے محض بیانات کی بجائے عملی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
غیرقانونی شکار اور جنگلی جانوروں کی خریدوفروخت کا سب سے بڑا سبب متعلقہ اداروں میں موجود کرپشن اور غفلت ہے۔ بعض اہلکار مالی مفادات کے عوض شکاریوں اور اسمگلروں کو تحفظ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ قرار دیے گئے پرندے بھی ہماری مقامی مارکیٹوں میں دستیاب ہوتے ہیں۔ وائلڈ لائف قوانین کی موجودگی کے باوجود ان پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونا المیہ ہے۔
جنگلی حیات کی بقا محض حکومتی اقدامات سے ہی ممکن نہیں بلکہ عوامی رویے، شعور اور تعلیم میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو قدرتی ماحول، جانوروں اور پرندوں کی اہمیت سے روشناس کروانا ہوگا تاکہ آئندہ نسلیں ان کے تحفظ کو اپنا فرض سمجھیں۔
اس سلسلے میں چند سفارشات پر عمل کیا جائے تو جنگلی حیات کو تحفظ دیا جاسکتا ہے۔اور قومی سطح پر مہم چلائی جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی حالیہ کوشش کو باقی صوبوں میں بھی دہرانا چاہیے۔ وائلڈ لائف قوانین کو مزید مؤثر، سخت اور قابلِ عمل بنایا جائے۔ اسکولوں، کالجوں، اور میڈیا کے ذریعے جنگلی حیات سے محبت کو فروغ دیا جائے۔ محکمہ وائلڈ لائف میں احتسابی نظام کو فعال کیا جائے تاکہ بدعنوانی کا قلع قمع ہو۔ جنگلی حیات کے تحفظ پر سائنسی ریسرچ اور ڈیٹا کلیکشن کو فروغ دیا جائے۔
قدرت نے ہمیں نہایت حسین و جمیل جنگلی حیات سے نوازا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ وقت دور نہیں جب ہماری نسلیں صرف کتابوں میں ان نایاب جانوروں اور پرندوں کی تصویریں دیکھ کر حیران ہوا کریں گی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں شروع ہونے والا یہ کومبنگ آپریشن ایک مثبت قدم ہے، مگر یہ پہلا قدم ہے۔ اس سفر کو منزل تک پہنچانے کے لیے مسلسل کوشش، سیاسی عزم، انتظامی دیانتداری، اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |