رمضان میں سحری گھی شکر کے ساتھ کی جاتی تھی۔دیسی گھی خریدنے کے لیے ایک دفعہ بچہ لوگ ہرنیاں والا گئے ۔ 1969 میں ہم لوگ اٹک تھے ۔ مجھے گھی لینے کے لئے فتح جنگ بھیجا گیا ۔ تازہ تازہ یحیٰ خان کا مارشل لا لگا تھا۔ اس کے مطابق بازار کھلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر تھے ۔ جب میں فتح جنگ پہنچا تو بازار بند تھا۔ نور عالم ، میر عالم باقی دکانداروں کی طرح دکان کے باہر بیٹھے بازار کھلنے کے فوجی وقت کا انتظار کر رہے تھے ۔نور عالم صاحب فرمانے لگے ۔ ماں ،بہن گھر کے کام میں مصروف ہی بھلی لگتی ہے۔ ہم دکاندار جس طرح بیکار بیٹھے فوجی وقت کا انتظار کر رہے ہیں یہ کوئی مناسب بات نہیں ۔ نور عالم صاحب ہول سیل، آڑھت اور نمک کی ایجینسی کے مالک تھے ۔ہم لوگ دیسی گھی اور راک سالٹ ان سے لیتے تھے ۔
لسی میں پتھر نمک کی کھٹی ڈالی جاتی اور مناسب وقت پر نکال لی جاتی۔ دکان پر پسا ہوا نمک نہیں ہوتا تھا ۔ گھر میں حسب ضرورت لنگری میں نمک میں پیس لیا جاتا ۔نمک ، مرچ رکھنے کے لئے چھ خانوں والا لکڑی کا باکس تھا اس کے اوپر سلائڈنگ کور تھا۔ اس باکس کا نام تھا "لونكي "۔
چائے میں بھی نمک ڈالا جاتا اس کا مقصد گڑ کی بچت تھا۔ اب جا کر میڈیکل سائنس کو پتہ چلا ہے کہ نمک اور گڑ ایک دوسرے کے ہاضمے میں مدد کرتے ہیں ۔اس کی بنیاد پر نمکول بنایا گیا ہے ۔بچی ہوئی لسی میں تیل ڈال کر نیچرل شیمپو بنا لیا جاتا ۔ اگر لسی کو بضرورت پھینکنا پڑتا تو اس کو ایسی جگہ ڈالتے جہاں اس کے اوپر پاؤں آکر بےادبی نہ ہو ،یہ تھا رزق کے ادب کا کمال۔
کسی کی کھانے کی دعوت کا عجیب اسٹائل تھا۔اس کے گھر والوں کو جا کر کہتے ،”اج ۔ڈاکٹر صاحب نی روٹی نہ پکیسو "۔ اس کو آسان اردو میں روٹی ہوڑنا / منع کرنا کہتے تھے ۔ ہمارے گھروں میں مستری حضرات ہرنیاں والا سے آتے اس نسبت سے ان کا نام ہرنوچ تھا۔ بچپن میں یہ نام بلوچ کی طرح رعب دار اور امپریسیو لگتا تھا۔ یہ حضرات تعمیری کام کے سلسلے میں ہفتوں قیام کرتے ۔ ان کے لیے کھانا بڑے اہتمام سے تیار ہوتا۔ دس بارہ سال پہلے قاضی طاہر اسحاق کے ساتھ کھدری کے کھیتوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پٹواری صاحب وزٹ پر آئے ہوئے تھے۔ ہمارے سامنے دو خواتین کھاریاں بھر کے کھانا لائیں ۔ کھانے کے اہتمام اور ورایٹی دیکھ کر پٹواری صاحب کی قسمت پر رشک آیا۔
جامع مسجد میں مسافر خانہ تھا۔ اس میں کپڑے بیچنے والے پٹھان قیام کرتے تھے ۔ وہ مغرب کے بعد اعلان کرتے ،”مسیتی ناں مسافر آں "،یہ اعلان سن کر لوگ ان کے لیے کھانا لے آتے۔ مغرب کی نماز میں اجنبی چہرہ دیکھ کر اسے مہمان سمجھا جاتا۔اس کے اعلان کے بغیر آہستہ سے اس کے کان میں کہہ دیتے , "آپ فکر مند نہ ہوں میں کھانا لا رہا ہوں”۔
1985 کی بات ہے میں نے مغرب جامع مسجد میں پڑھی ۔ نماز کے بعد صوفی غلام حسین مجھے مسافر سمجھ کر میرے پاس آیا اور چپکے سے کہا ۔آپ فکر مند نہ ہوں میں کھانا لا رہا ہوں۔ میں نے تعارف کروایا اور عرض کی کہ میں سسرائیل کے سرکاری دورے پر ہوں ،میرے قیام و طعام کی آپ فکر نہ کریں۔
سلسلہ خوراکاں کا آٹھواں مضمون
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔