مرنجان و مرنج اشعر نور سے ملاقاتوں کا احوال
ایک مقولہ مشہور ہے کہ ایک صاحب علم سے ملاقات ہزاروں کتابوں کو پڑھنے سے بہتر ہے۔ اشعر نور صاحب کا تعلق کراچی سے ہے جنہیں علم و حکمت گھٹی میں ملی۔ ان کے والد گرامی اور والدہ محترمہ دونوں مصنفین ہیں اور اشعر نور خود بھی اعلی پائے کے صاحب کتاب ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے آنکھ کھولی تو "وی سی آر” کا دور تھا مگر ان کے ہاتھ میں والدین نے کتاب تھمائی۔ نور اشعر صاحب کی ایک تالیف "114 نمبر کتاب” کے نام سے گزشتہ دو سالوں سے زیر تکمیل ہے۔ اس کتاب کو مکمل ہونے میں ابھی مزید دو سال لگیں گے۔ اشعر نور صاحب یہ مقدس کتاب بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ قرآن حکیم کی سورتوں کے نفس مضامین اور ان کے حکیمانہ ترجمہ و تشریح کے حوالے سے مرتب کر رہے ہیں۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے قرآن کریم کے فلسفہ زندگی اور اسلام کو سمجھنے اور عمل کرنے میں مزید آسانی پیدا ہو گی۔
اشعر نور نے نوے کی دہائی میں چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کی اور اسی سال انگریزی زبان و ادب میں ماسٹر بھی کیا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ بیس سال تک سعودی عرب میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ رہے۔ اگرچہ آج کل وہ آسٹریلیا ملبورن میں اکاونٹینسی کی اپنی فرم چلا رہے ہیں۔ لیکن ان کا اصل مقام و مرتبہ ایک طالب علم کی طرح حصول علم اور اس کی ترویج ہے۔ وہ اعلی پائے کے انٹرنیشنل سپیکر بھی ہیں۔ البتہ ان کی اصل پہنچان علم دوستی ہی ہے جس کے شوق و اظہار میں وہ یدطوطی رکھتے ہیں۔
کنفیوشیئس کی ایک کہاوت ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک کتاب ہوتی ہے مگر ہر انسان اس کو لکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کا اظہار کر سکتا یے۔ اشعر نور سے ہماری پہلی ملاقات چھبیس دسمبر کو ہوئی جب "قائد ڈے” پر ہمیں پاکستان شارجہ سوشل سنٹر اکٹھے جانے کا اتفاق ہوا۔ سرمد خان کو اردو کتابوں اور زبان و ادب کے فروغ کے علاوہ علم دوستوں کو اکٹھا کرنے کا بھی شوق ہے۔ قائداعظم ڈے پر کیک کاٹنے کی تقریب تھی جس کا احتمام پاکستان سوشل سنٹر کے روح رواں خالد چوہدری صاحب نے کیا تھا۔ ستائیس دسمبر کو سرمد خان کی دوبارہ کال آئی تو انہوں نے بتایا کہ آج شام سات بجے ابراہیمی ریسٹورنٹ "بر دبئی” میں ایک اور تقریب ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو اشعر نور صاحب سے دوسری ملاقات ہوئی۔ یہ ایک پراپرٹی کانفرنس تھی مگر ڈنر سے پہلے اور بعد میں پورا وقت اشعر نور کو سنتے گزرا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار اشعر نور کو سنتے ہوئے اردو کے اس شعر کے گہرے اثرات کو محسوس کیا کہ، "سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں،
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں۔”
گزشتہ برس اسی ریسٹورنٹ میں راس الخیمہ میں مقیم مکرمی انجنیئر محمد جاوید صاحب نے قائد ڈے پر کیک کاٹنے کا احتمام کیا تھا۔ اس بار قائداعظم کے یوم پیدائش پر کیک کاٹنے کی تقریب صرف شارجہ میں ہوئی اور اس پر بھی "کمرشل ازم” غالب تھی۔ اس تقریب میں جتنے بھی مہمان شامل ہوئے ان کے سامنے کھانا رکھا گیا جس کے بعد ہر مہمان سے اس کا بل وصول کیا گیا۔ ہم دوستوں نے ابراہیمی ریسٹورنٹ میں دعوت نامہ پڑھے بغیر تقریب کو "قائد ڈے” سمجھ کر شرکت کی مگر برتھ ڈے کا کیک کاٹا گیا اور نہ ہی اس موضوع پر کسی نے سٹیج پر چڑھ کر کوئی گفتگو کی۔ یہ کانفرنس خالصتا کاروباری تھی جہاں کسی بھی مہمان سے کھانے اور ڈرنکس وغیرہ کا بل وصول نہیں کیا گیا۔
تاہم اس کانفرنس میں اشعر نور کی شمولیت ایک علمی اضافہ تھا۔ ہم چند دوست بشمول سرمد خان اور عارف شاہد جتنی دیر کانفرنس حال میں رہے اشعر نور کی علمی گفتگو سے مستفید ہوتے رہے۔ اشعر نور نے ایک دلچسپ واقعہ یہ سنایا کہ آسٹریلیا میں قبر کی جگہ خریدنے کی بڑی اچھی آفر لگی تھی انہوں نے اسے خریدنے کے لیئے ایک ایجنٹ سے بات کی تو اس نے پوچھا کہ جناب پلاٹ ایک منزلہ چایئے یا دو منزلہ، تو اس کی وضاحت میں ایجنٹ نے کہا کہ صاحب دو منزلہ پلاٹ کی قبر میں آپ دونوں میاں بیوی اوپر نیچے اکٹھے رہ سکتے ہیں جس پر ہم سب دوستوں نے زور دار قہقہہ لگایا۔ میں نے ازراہ تفنن اشعر بھائی سے پوچھا آسٹریلیا میں مرنے کے لیئے کم از کم کتنے پیسے درکار ہوتے ہیں تو انہوں کہا کہ آپ مر تو مفت میں بھی سکتے ہیں مگر قبر کی بکنگ کے لیئے کم از کم آپ کی جیب میں دس ہزار ڈالر ہونے چایئے۔ آسٹریلیا میں مکان، کھانا اور دیگر سوشل بینیفٹس مفت ملتے ہیں۔ اس ایک بات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملک میں جینا آسان اور مرنا مشکل ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ اشعر نور کو کسی بھی موضوع پر بات کرنے کے لیئے زیادہ سوچنا نہیں پڑتا تھا۔ ان کی میموری اور ووکئبلری بہت اچھی تھی۔
کانفرنس میں سپیکرز اور حاضرین رئیل اسٹیٹ پر باتیں کر رہے تھے۔ سٹیج پر اشعر نور کو فوٹو سیشن کے بہانے بلا کر ان کو سننے کی فرمائش کی گئی۔ اس محفل میں صحافی حضرات بھی موجود تھے۔ رئیل اسٹیٹ بزنس کے بارے اشعر نور نے انگریزی زبان میں مختصر انٹرویو ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ The Best Investment on Earth is Earth جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ زمین پر بہترین سرمایہ کاری خود زمین ہے کہ اس کی ملکیت حاصل کر کے آگے چل کر اس سے سب سے زیادہ منافع کمایا جا سکتا ہے۔ میں اشعر نور کو اور بھی سننا چاہتا تھا۔ ڈنر شروع ہونے سے پہلے میں نے انہیں اگلے روز ڈنر پر تیسری بار اکٹھے ہونے کی درخواست کی تو انہوں نے اسے فورا قبول کر لیا۔
ہماری یہ تیسری ملاقات شیخ زید روڈ اونکس ٹاور میں اگلے روز شام تین بجے طے پائی۔ ہمارے میزبان پاکستانی برٹش سجاد حسین تھے میرے اور سجاد حسین کے درمیان شرط لگ گئی کہ ہمارا مہمان وقت پر آتا ہے یا نہیں؟ میں نے کہا اشعر نور صاحب مقررہ وقت تین بجے کی بجائے دو بج کر پچپن منٹ پر استقبالیہ پر ہونگے اور یہی ہوا جب میں ان کا استقبال کرنے کے لیئے نیچے اترا تو وہ دو بج کر پچپن منٹ ہی پر میرے سامنے کھڑے تھے۔ کھانے کے کسی عربی ریسٹورنٹ پر جانے سے پہلے ہم اگلے دو گھنٹے دفتر میں بیٹھ کر سکتہ کے عالم میں انہیں سنتے رہیں۔ اس بار نوجوان پاکستانی برٹش رئیس صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ اشعر نور کی محیر العقول گفتگو سے وہ بھی بہت محظوظ ہوئے۔
اردو زبان کا محاورہ "مرنجان مرنج” مجھے بہت پسند ہے اس کا صحیح مفہوم مجھے اشعر نور کی ان تین ملاقاتوں میں سمجھ آیا۔ اردو میں یہ دو الفاظ فارسی زبان سے آئے ہیں جن سے مراد ہر حال میں خوش رہنے والا شخص یے۔ کبھی ‘مرنجان’ پہلے اور کبھی ‘مرنج’ پہلے لکھا ہوتا ہے۔ حالانکہ مرنجان مرنج کا اصطلاحی مفہوم ایسا اہل علم شخص ہے جو ہر موضوع پر خوش اسلوبی سے سیر حاصل اور متاثرکن گفتگو کر سکتا ہو۔
متحدہ عرب امارات دبئی، ایمریٹس مال کے قریب "المشاوی ریسٹورنٹ” نامی عربی کھانوں کے ٹیبل پر بھی اشعر نور کو سننے کا دور جاری رہا۔ یہ محاورہ نور اشعر پر عین صادق آتا ہے۔ میں نے اسی لیئے "مرنجان” کا لفظ "مرنج” سے پہلے لکھا ہے۔ میرے جیسے علمی تشنگی رکھنے والے طالب علم کے لیئے نور اشعر صاحب ایسی مرنجان مرنج ہستی ہیں جن کی گفتار سے علم و معرفت کا نور پھوٹتا ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |