فکر و نظر کے پھول جب الہام میں خوشبو کے جھونکے لاتے ہیں تو صوتی ترنگ رقص کرتی ہوئی کاغذ پر بکھر جاتی ہے جو کہ شعر کی صورت اختیار کر جاتی ہے جو جمالیاتی پہلو بکھیرتی ہوئی اذہانِ سخنوراں کو ایک نادیدہ سوز و گداز بخشتی ہے اور یہ سوز و گداز ایک طاقچے میں رکھی ہوئی قندیل کی مانند ہے جو خود تو جلتی ہے لیکن دوسروں کو روشنی بہم پہنچاتی ہے روشنی پانے والے خوش نصیب تیرگی سے نکل کر اجالوں کے گلستان میں پہنچ جاتے ہیں جہاں پر ہر روز گلرنگ سویرا جلوے بکھیرتا ہے شبنم کے قطرے گلوں پر فدا جسم و جاں کر رہے ہوتے ہیں۔ مقبول ذکی مقبول کی کتاب "منتہائے فکر ” بھی ایسا ہی ایک شبنم کا قطرہ ہے جو سخن پر اپنی جان فدا کر رہا ہے اور زندگی کی کھیتی کو ہرا کرنے والی کربلا کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ زندگی گلوبل ویلج بنی تو دوریاں نزدیکیوں میں سمٹ گئیں لوگوں کی دور دور تک رسائی ہوتی گئی ان لوگوں میں میں بھی شامل تھا جسے کئی نئے دوست ملے کتابوں کا تبادلہ ہوا ایوارڈ ملے محبتیں ملیں اور کاروان قلم بڑھتا گیا۔ مقبول ذکی مقبول بھی مجھے فیس بک پر ملے ان کی شخصیت میں محبت کے پہلو دیکھے تو ان سے محبت ہو گئی ان کی شاعری کے علاوہ ادب دوستی بے مثال ہے کئی ادیب دوستوں کے انٹرویوز کر کے مختلف اخبارات کی زینت بنا چکے ہیں جن میں ایک میں بھی شامل ہوں۔ مقبول ذکی مقبول شاعری کے ساتھ نثر بھی اچھی لکھتے ہیں ان کی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی عشقِ محمدؐ آل محمدؐ ہے جو اُن کو سب سے ممتاز کرتا ہے۔ کیونکہ یہ اجرِ رسالت بھی ہے۔ ان کی نثر ہو یا شاعری دونوں میں سلاست کا پہلو نمایاں ہے میں ان کے تکنیکی
محاسن پر بات نہیں کروں گا بلکہ ان کے خیالات جو شعر کی صورت میں دھنک رنگ بکھیر رہے ہیں ان پر طائرانہ نگاہ ڈالوں گا۔
شاعر کوئی بھی ہو جب وہ حمد لکھتا ہے تو اس کا فکر و شعور اللہ رب العزت کی وحدانیت کو دل کے عرش پر بٹھا کر بات کرتا ہے کائنات کا مالک اول بھی ہے آخر بھی ہے ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے اسے ڈھونڈنے نکلو تو وہ خود ہی کہہ دیتا ہے ۔
نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ
ق 16
یعنی "میں تمہاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں "
اللہ کے اس قرب کو ڈھونڈنا اور محسوس کرنا ہی بندے کی معراج ہے اور وہ لوگ بہت کامیاب لوگ ہیں جو اللہ کو ڈھونڈ لیتے ہیں اور شب و روز اس کریم رب سے سرگوشیاں کرتے ہیں اسی قرب کی کیفیت کا کھوج بھی مقبول ذکی مقبول نے لگایا ہے اور بے ساختہ کہہ اٹھا ہے:۔
قاصر بندہ دیکھ نہ پایا
دل کے اندر مالک اپنا
مقبول ذکی مقبول کی کتاب "منتہائے فکر” کے نگار خانہ ء شعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل قاری کے فہم و ادراک پر کیا اثر چھوڑتے ہیں یہ فیصلہ قاری کی فکر و نظر پر چھوڑتا ہوں چند اشعار میں رچا حسن تخیل ملاحظہ کیجیے:۔
دین کے بچنے کی خاطر خون تو بہتے رہے
سب نے دیکھا کربلا میں آپؑ کا حصہ بلند
اک دیے کی روشنی کہنے لگی دنیا میں یہ
ہے حسین ابنِ علیؑ کا جا بجا خطبہ بلند
دنیا لٹ گئی مولا کی
اکبر کے اُس قتل کے بعد
مقام جنت بلند و بالا عطا کرے گا وہ رب اکبر
یہ اشک جاری ہیں تیرے دکھ میں حسین ؑ
دلبر سلام تجھ پر
حروف واضح میں نام تیرا جہاں کے خالق نے لکھ دیا ہے
وہ دیکھ مقبول باب جنت پہ صرف مولا حسینؑ شاکر
ہے دین حق کا حسین ؑ ناصر
ملا ہے رتبہ شہید اکبر
چھوڑ کر شہر مدینہ چل پڑا جو کربلا
آسماں بھی اور زمیں بھی ہر گلی دیوار پڑھ
دین حق کو بھی ضرورت آپ کے سجدہ کی تھی
ہو گیا مقبول تر یہ آپ کا پڑھنا نماز
کربلا میں یوں رسالت کا صلہ ملتا نہ کاش
گھر نبیؐ کا دن دیہاڑے یوں کبھی لٹتا نہ کاش
اٹھا کے ہاتھ میں علم عدو سے لڑ رہے ہیں آپؑ
چمک رہے ہیں آپؑ یوں کہ جیسے چاند کی شعاع
آخر میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالٰی مقبول ذکی مقبول کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور ان کے فنِ شعر گوئی کو مزید وسعت اور بلندی عطا فرمائے۔
سیّد حبدار قائم
آف غریب وال اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔