مقبول ذکی مقبول ایک درویش صفت ادبی لکھاری
تحریر : ممتاز عارف
( ریڈیو پاکستان سرگودھا )
سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، اس کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہاں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، لیکن ایک تو ماننا پڑے گا کہ جدید سائنسی ایجادات کی بدولت دُنیا اس وقت صیح معنوں میں گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔ انٹرنیٹ نے معلومات تک رسائی اتنی آسان بنا دی ہے کہ بیسویں صدی میں اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ رابطے آسان ہو گئے ہیں اورفاصلے سمٹ گئے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرنے اور ایک دوسرے کا حال معلوم کرنے کے لئے خطوط لکھے جاتے تھے ، پھر سائنس نے ترقی کی تو ٹیلی فون کی سہولت سے ایک دوسرے کے حال سے باخبر رہنے لگے ۔ مزید ترقی ہوئی تو موبائل فون کا سیلاب اور انٹرنیٹ کا انقلاب آ گیا جس نے رابطے اس قدر آسان اور سہل کر دیئے کہ چند سال قبل تک کوئی اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ انٹرنیٹ کے کرشمے سے انسان جب چاہے اپنی مرضی سے معلومات تک رسائی حاصل کر لیتا ہے ۔ شاعروں اور ادیبوں کے درمیان رابطے رکھنا انتہائی آسان ہو گیا ہے ۔ لمحوں میں افکار و خیالات کا تبادلہ ہو جاتا ہے ، واٹس ایپ کے ذریعے آپ ادبی مواد اور شاعری بڑی آسانی سے اپنے مطلوبہ ہدف تک پہنچا سکتے ہیں ۔ آج کا شاعر و ادیب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دُنیا سے جڑُا ہوا ہے ۔ ایک دوسرے سے تعارف اور روابط بہت آسان ہو گئے ہیں ۔ سیکڑوں میل دُور بیٹھے اگر کسی شاعر سے ملاقات کا سبب نہیں بن پا رہا تو واٹس ایپ ، موبائل فون اور فیس بُک کے ذریعے آپ اُس سے روابط بھی قائم کر سکتے ہیں اوربات بھی کر لیتے ہیں ۔
مقبول ذکی مقبول سے اگرچہ میری ملاقات تو نہیں لیکن ان کے ادبی قد کاٹھ سے ضرور واقف ہوں ۔ میرا ان سے تعارف سوشل میڈیا ہی کے ذریعے ہوا ۔فیس بُک اور واٹس ایپ پر مختلف ادبی پروگراموں میں بھکر کی ادبی سرگرمیوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اُن میں مقبول ذکی مقبول کو بے حد نمایاں اور غیر معمولی طور پر متحرک پایا ۔ حالیہ دنوں میں سرگودھا رائٹرز کلب کی سرگرمیوں سے آگاہی کے بعد انہوں نے کال کرکے مجھے بتایا کہ پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی وساطت سے مجھے ٫٫ رنگِ تبسم ،، کے نام سے آپ کی کتاب ملی ہے ۔ سوچا کال کر کے آپ کو دِلی طور پر مبارکباد پیش کروں ۔ یوں ہمارے درمیان رابطے اور مکالمے کا آغاز ہوا ۔ رابطوں کا سلسلہ مزید آگے بڑھا تو معلوم ہوا کہ مقبول ذکی مقبول کئی کتابوں کے مصنّف ہیں ۔ ایک پختہ گو شاعر اور عمدہ نثر نگار ہیں ۔ وہ ایک ادبی لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادبی کار کن بھی ہیں ۔ ادب کی ترقی وترویج ان کا مشن ہے منکیرہ ( بھکر ) کو ایک معتبر دبستان بنانے کے لئے گزشتہ کئی سال سے سرگرم عمل ہیں ۔ وہ ایک درویش صفت انسان اور عشقِ محمد و آلِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے سرشار ہیں ۔
ذکرِ حضرت امام حسین علیہ السّلام اور ذکرِ کربلا تو ان کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے ۔ وہ واقعہء کربلا اور شہادتِ حضرت امام حسین علیہ السّلام کو دین کا چہرہ تصوّر کرتے ہیں اور اس چہرے کی تلاوت ان کے ایمان کی رُوح ہے ۔ وہ ذکرِ حضرت امام حسین علیہ السّلام کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ وہ یہ عبادت خُوب اور جی بھر کے کر رہے ہیں ۔ واقعہء کربلا اور سیرت و کردارِ حضرت امام حسین علیہ السّلام ان کے ہاں ایک مستقل استعارے کے طور پر جھلملا رہے ہیں ۔
مقبول ذکی مقبول ، منکیرہ ( بھکر ) کے ادبی افق پر اس قدر نمایاں طور پر جھلملا رہے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے نشانِ منزل بن گئے ہیں ۔ وہ تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی شعور ، بصیرت اور صلاحیت سے مالا مال ہیں ۔ ایک اچھے تجزیہ نگار کے طور پر بھی علمی و ادبی حلقوں میں خاصے مقبول ہیں ۔ ان کے نثر پارے ادبی دُنیا میں خاص پہچان اور مقام رکھتے ہیں ۔ ٫٫ سجدہ ،، اور ٫٫ منتہائے فکر ،، جیسی کتابیں ان کا تخلیقی معیار متعین کرنے اور ان کی شاعرانہ عظمت کے لئے کافی ہیں ۔
٫٫ عاصم بخاری : شخص اور شاعر ،، جیسی کتاب لکھ کے تحقیق اور تنقید کی دُنیا میں انہوں نے اپنا لوہا منوا لیا ہے ۔ عاصم بخاری ادب میں ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں اور انہوں نے مختلف اصنافِ سخن میں اتنی عمدگی سے طبع آزمائی کی ہے کہ پڑھنے والا عش عش کر اُٹھتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اتنے ہمہ جہت ادبی لکھاری پر قلم اُٹھانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن مقبول ذکی مقبول نے عاصم بخاری کا اتنی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور ان کی فنی جہات کا اتنی عرق ریزی سے مشاہدہ کیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مقبول ذکی مقبول نے عاصم بخاری کی شخصیت اور فن کا عطر کشید کر کے اسے لفظوں کے روپ میں قارئینِ علم و ادب تک منتقل کردیا ہے ۔ ان کی تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی بصیرت تو قابلِ تحسین ہے ہی ، شاعرانہ اسلوب اور طرزِ نگارش بھی لائقِ تعریف ہے ۔ اُن کا اسلوب اتنا دلکش اور متاثر کن ہے کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں کھو جاتا ہے ۔ ان کی شاعری روایت اور جدت کا حسین سنگم ہے ۔ شاعرانہ اسلوب اتنا سادہ ، سہل ، عمدہ اور پر تاثیر ہے کہ ان کے افکار و خیالات کی خوشبو فوری طور پر پڑھنے والے کے رگ و پے میں اتر جاتی ہے ۔ عقیدتوں سے معمور ان کے سلام و منقبت کی مہک پڑھنے والے کو روح کی گہرائی تک سرشار کر دیتی ہے ۔ ان کے یہاں سہل ممتنع کی عمدہ مثالیں بھی موجود ہیں اور ان کی شاعری پڑھ کر تازگی کا بھی احساس ہوتا ہے ۔ مقبول ذکی مقبول ادبی مراکز سے دُور منکیرہ ( بھکر ) جیسے مضافاتی شہر میں ادب کی جو شمع روشن کئے ہوئے ہیں ۔ اس کی کِرنیں نہ صرف منکیرہ ( بھکر ) کے ادبی افق کو منوّر کر رہی ہیں بلکہ بھکر کےاردگرد کے علاقوں کی ادبی فضا میں بھی جھلملاہٹ پیدا کررہی ہیں ۔
مقبول ذکی کا شعری آہنگ اِس کی صاف و شفاف شخصیت کی طرح سچا ، سُچا اور کھرا ہے ۔ رثائی ادب میں مقبول کی ایک خاص پہچان اور مقام ہے ۔ میری دُعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ مقبول ذکی مقبول کے قلم میں اور زور اور تحریریں میں مزید تاثیر پیدا کرے ( آمین)
ممتاز عارف
ریڈیو پاکستان سرگودھا
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |