اونچی دکان پھیکا پکوان
ہم لوگ 1989 میں ایبٹ آباد تھے۔ پہاڈی علاقے کے بازار میں بعض دکانیں سڑک کے لیول سے آٹھ دس فٹ اونچی ہوتی ہیں۔
ہمارا خادم سیالکوٹ کا رہنے والاخدا بخش تھا۔ تھوڑی سی ترغیب پر اس نے تبلیغ میں چلہ لگا لیا اور داڑھی مبارک رکھ لی۔ چلے میں چھٹی اس کی اپنی تھی ،خرچہ بھی اپنا تھا ۔اس پر بھی چلے سے واپسی پر بہت خوش تھا اور دعا دے رہا تھا۔
ایک دن اس سے بیکری آئٹم منگوائے ۔ اٹک والے چائے میں رس ڈبو کر کھاتے ہیں۔اور ان کو بطور فیشن یا سادگی سے بیکری آئٹم کہتے ہیں ۔
خدا بخش بیکری سے رس (rusk)لایا ۔ کھانے پر صحیح مزہ نہ آیا تو خدا بخش سے رسوں کی کوالٹی کی ڈرتے ڈرتے شکایت کی ، فرمانے لگے
سر ! میں تاں۔ اچی ۔بیکری توں لے کے آیا واں ۔
بازار کا چکر لگا تو اس کی بات کی تصدیق ہو گئی۔بیکری واقعی سڑک کے لیول سے آٹھ فٹ اونچی تھی ۔
اٹک شہر میں اعلیٰ کوالٹی کے گول رس بنتے ہیں۔ یہ دو قسم کے ہوتے ہیں ۔اوپر والے رس میں کرسٹ(crust) زیادہ ہوتا ہے۔ نیچے والا حصہ ہمارے گھر میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
اٹک کے بیکرز نیچے والے رس کو مزید دو حصوں میں کاٹ دیتے ہیں ۔
یہ ڈی نما(D-Shape) رس آسانی سے کپ میں ڈبویا جا سکتا ہے ۔ اس وجہ سے یہ ہمارا فیورٹ رس ہے۔ اب تک اٹک سے یہ سوغات آتی رہتی ہے۔ ڈ اکٹری اور فوج ہمارے ٹیسٹ (Taste) کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
کراچی میں مستطیل رس ملتے ہیں انکو پا پے کہتے ہیں ۔ مسرور بیس 1991 کے قیام کے دوران ہم لوگ راولپنڈی کے اخبار اور اٹک کے رس مس کرتے تھے ۔
سائٹ روڈ پر گول رسوں کی ایک بیکری دریافت ہوئی تو اللہ پاک کا شکر کیا۔ فیصل بیس سے مسرور ہاسپٹل آنے والی ایمبولینس اس راستے سے آتی تھی۔اس کے ڈرائیور کی مہربانی سے گول رس ملتے رہے ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔