پرائمری سکول ملہووالہ ! یادیں

پرائمری سکول  ملہووالہ  ! یادیں


 اشرف گولا ہم سے ایک کلاس جونئیر تھے ۔ان کی آواز بہت اچھی تھی۔ ان کی1964 میں سکول میں سنائی ہوئی نعت یاد آ رہی ہے

نبیؐ ہمارے نبیؐ ہمارے
وہ حق کی باتیں بتانے  والے
وہ سیدھا رستہ دکھانے والے


 ابراہیم صاحب کا گھر لاہنی مسجد کے قریب تھا اور   1965میں گاؤں کا سب سے مغرب میں گھر تھا ۔ان کی آواز بھی اچھی تھی۔ وہ سکول کے سٹوڈنٹ نہیں تھے بلکہ  بزرگ تھے ایک دفعہ انہوں نے بھی سکول میں نعت شریف پڑھی تھی۔ 2021 میں ہسپتال والے قبرستان جانا ہوا۔ ایک گھر کے اندر سے گزر کر شارٹ کٹ مارا ۔ تعارف پر پتہ چلا کہ ابراہیم صاحب کے عزیز ہیں ۔  یہ گھرگاؤں کا سب سے مشرق والا گھرتھا۔

 سکول کی چار دیواری نہ ہونے کا فائیدہ یہ تھا۔کہ راستہ چلنے والوں کو دیکھتے رہتے تھے اور بور نہیں ہوتے تھے ۔ایک دفعہ  کرانچی  دیکھی جو چھب کی طرف جا رہی تھی ۔ پتہ چلا کہ مامے شفیع کھوکھر کے کوئی عزیز فتح جنگ رہتے ہیں اور وہاں سے اپنی ذاتی کرانچی پر سارا سفرطے کر کے آئے ہیں۔
 1966 میں ایک سوٹ میں ملبوس بزرگ سکول کے پاس سے گزرے اور رک کر    ماسٹر عبدالقادر صاحب کو لال بہادر شاستری کے انتقال کی خبر دی۔ یہ بزرگ گرلز سکول کی ٹیچر کے میاں تھے ۔  1967 میں ہم لوگ لاہنی مسجد میں مغرب کے وقت بیٹھے تھے ماسٹر عبدالقادر صاحب افسوس ناک خبر لے کر آئے کہ اسرایّیل نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا ہے ۔

لاہنی مسجد کا پرانا نقشِہ ذہن میں رکھیں ۔صحن کے مغرب میں تین کمرے تھے ۔سنٹر میں نماز کا ہال ،ہال کی ایک سائڈ پر سکول کا کمرہ ،ہال کی دوسری سائڈ پر چونے کا سٹور،صحن کے مشرق میں تیل کی گھانی، واش رومز اور شرینھ(Albizia lebbeck) کا درخت ۔ آگے سنتے جائیں! درخت کے ساتھ سکول کی کنگ سائز گھنٹی چونا گھانی اور گھنٹی اجتماعی ضرورت کی چیزیں تھیں۔ ان چیزوں سے پرانے سادے مسلمانوں کے نزدیک مسجد کی بے ادبی نہیں ہوتی تھی ۔ مسجد کے شمال مغرب میں رستے کے ساتھ چونے کی بھٹی کے نشانات تھے ۔میری یاد سے پہلے اس بھٹی میں مسجد کے زیر اہتمام لائم سٹون سے چونا بنایا جاتا تھا۔
ہمارے زمانے میں اس بھٹی کے پاس سردیوں میں بچہ لوگ ڈھاڈھی(Bonfire) سینکتے تھے .سکول کے ساتھ ہی اوپن ائیر ٹوائلٹ کا معقول انتظام تھا۔
لنچ باکس کی ضرورت اور وجود دونوں مفقود تھے ۔ آدھی چھٹی کے وقت سب لوگ ٹیچر اور طالب علم محمود اور ایاز گھروں کو جاتے اور فریش فرام اوون ( in Letter & Spirit) روٹی شوٹی کھاتے تھے ۔

بستہ صرف بستہ ہوتا تھا۔۔اس کی ذات و صفات میں سکول بیگ ۔۔تھیلا یا (Satchel) شریک نہیں تھا بستہ ان سلا کپڑا ہوتا تھا۔ کپڑے کو زمین پر بچھا کر اس کے سنٹر میں ۔سلیٹ اور تین کتابیں کاپیاں رکھ کر عرض میں knot یا گانٹھ لگا دیں ۔ پھر لمبائی والے سروں کو گانٹھ لگائیں بستہ تیار ہو گیا ۔
اس کو کندھے پر لٹکائیں۔ دائیں ہاتھ میں تختی اور بائیں ہاتھ میں دوات پکڑیں لیفٹ رائٹ ( لیپھ ۔۔۔۔تلائی) کرتے ہوئے سکول روانہ ہو جائیں ۔
غور سے سنیں امی جان کیا گا رہی ہیں۔

ابراہیم مینڈا پڑھن گیا
کوئی نواں سکول ہووے

بستہ چاندی نا
سونے نا رول ہووے

میرا ابرہیم پڑھنے گیا ہے اور اس کا اسکول نیا ہو
اس کا بستہ چا ندی کا ۔۔اور اس کا پیمانہ (فٹ سکیل) سونے کا ہو

ابرا ہیم نی بودی ……….کنڈل مرینی آ
اکھ نخریلی ،صورت. …تکن ناں دینی آ

ابراہیم کے بال کنڈل کھاتے ہیں

اس کی آنکھ نخریلی اور اس کی صورت کو دیکھنے کی تاب نہیں

نوٹ:۔
اس نظم کے کوئی کاپی رائٹ نہیں ہیں ۔ ابراہیم کی جگہ اپنے بیٹے پوتے نواسے کا نام فٹ کریں اور وقار ملک ( تلہ گنگ) کی والدہ صاحبہ کو دعا دیں۔


تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

علماء و مشائخ کی فلسطینی سفیر سے ملاقات

ہفتہ مئی 13 , 2023
علمائے کرام ومشائخ عظام کا وفد ترکی، لیبیا، سعودی عرب، قطر اور فلسطین کے سفیر سے ملاقات کی۔ عالم اسلام اور باہم ملکی روابط پر تبادلہ خیال
علماء و مشائخ کی فلسطینی سفیر سے ملاقات

مزید دلچسپ تحریریں