مجلس اتحاد امت: فلسطینی کاز پر مذہبی جماعتوں کا اتحاد
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
ان دنوں پاکستانی سیاست میں ایک تازہ اور اہم پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان کی دو بڑی مذہبی جماعتوں، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف "مجلس اتحاد امت” کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے۔ اس اتحاد کے تحت 27 اپریل کو مینار پاکستان، لاہور میں ایک بڑا جلسہ اور احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا جس میں تمام مذہبی جماعتیں اور مکاتب فکر فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کریں گے۔
پاکستانی سیاست میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی روایت کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر انہی دونوں جماعتوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی تھی جس نے نہ صرف خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی بلکہ قومی اسمبلی میں بھی قابل ذکر نشستیں حاصل کیں۔
تاہم وقت کے ساتھ سیاسی مفادات اور داخلی نظریاتی اختلافات کی بنا پر یہ اتحاد تحلیل ہو گیا۔ لیکن فلسطینی مسئلے جیسے امت مسلمہ کے اجتماعی درد نے ایک مرتبہ پھر ان جماعتوں کو قریب لا کھڑا کیا ہے۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن اور حافظ نعیم الرحمن نے واضح کیا کہ فلسطین کی موجودہ صورتحال امت مسلمہ کے لیے ایک آزمائش ہے۔ ان کا یہ بیان صرف مذہبی جذبات نہیں بلکہ عالمی سیاسی بےحسی پر ایک تنقید بھی ہے۔
ان رہنماؤں کا یہ بھی کہنا تھا کہ امت مسلمہ کو اپنے حکمرانوں کے غیر مؤثر کردار پر شدید اعتراض ہے کیونکہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں عالمی سطح پر مؤثر سفارتی جدوجہد نہیں کر سکے۔
قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ رہنماؤں نے تشدد کی راہ اختیار کرنے کو سختی سے رد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل فوڈ چینز یا املاک پر حملے کرنا ملک کا اپنا نقصان ہے اور فلسطینی کاز کی خدمت نہیں۔
یہ رویہ اسلامی جمہوری سیاست میں پرامن اور باوقار احتجاجی کلچر کی ترویج کا مظہر ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مذہبی سیاست اب صرف نعروں سے آگے بڑھ کر دانشمندی اور سفارتی تدبر کی طرف مائل ہو رہی ہے۔
اگرچہ دونوں جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گی لیکن اس پریس کانفرنس میں ملکی مسائل جیسے صوبوں کے وسائل، نہری نظام، اور عوامی ملکیت جیسے موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی۔ یہ اشارہ ہے کہ مجلس اتحاد امت مستقبل میں ایک بڑے سیاسی اتحاد یا اپوزیشن گرینڈ الائنس کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کیا یہ اتحاد صرف دینی اتحاد ہے یا مذہبی اتحاد یا سیاسی اتحاد بھی ہے؟ اگر یہ سیاسی اتحاد ہے تو کیا اس میں سپاہ صحابہ اور اہل تشیع بھی مستقبل میں شامل ہوسکتی ہیں؟
ن لیگ کے رہنما ملک محمد احمد خان نے اس اتحاد کو "سیاسی طور پر خوش آئند” قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں، لیکن سیاسی تجزیہ نگار اس رائے سے مکمل اتفاق نہیں رکھتے کیونکہ اگر مذہبی جماعتیں عوامی مسائل پر مشترکہ مؤقف اپناتی ہیں، تو وہ اپوزیشن کا مؤثر متبادل بن سکتی ہیں۔
مجلس اتحاد امت کے قیام کو محض ایک علامتی یا وقتی احتجاجی عمل نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ یہ امت کے اجتماعی شعور کی بیداری اور اسلامی سیاسی وحدت کا مظہر ہے۔ اگر یہ اتحاد مستقل مزاجی، عوامی شمولیت، اور بین المسالک ہم آہنگی کو اپنی بنیاد بناتا ہے، تو یہ نہ صرف فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرے گا، بلکہ پاکستانی سیاست میں ایک نئی اخلاقی اور نظریاتی تحریک کی بنیاد بن سکتا ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |