نور سحرؔ احمرین،بہرائچ
میں نے اس کے ہی لئے خود کو سجا رکھا تھا
وہ یہ سمجھا کہ یہ گل اس نے کھلا رکھا تھا
اس نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو پریشانی میں
میں نے خوشیوں کی ردا سے جو چھپا رکھا تھا
جب بھی ملتی تھی اسے ہنستے ہوئے ملتی تھی
غم کو سینے میں کہیں میں نے دبا رکھا تھا
اتنا پابند کسی کو کبھی پایا ہی نہیں
جتنا اس کے لئے اس دل کو بنا رکھا تھا
جاگ کر بھی نہ ملی تجھ کو سحرؔ کی خوشبو
ظلمتوں نے جو اجالوں کو چھپا رکھا تھا
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔