ماہی نیاں وطناں توں
ہمارے میگزین کی پہلی بولتی تحریر یعنی یہ مضمون تحریر کے علاوہ آواز میں بھی موجود ہے جسے آپ سن بھی سکتے ہیں۔ مضمون کے آخر میں موجود ہے
آغاجہانگیربخاری
علاقہ چھچھ کے لوگوں میں ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ یہ لوگ مہمان نوازی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ایک روایت مشہور ہے کہ چھچھ کے کسی گاؤں میں بھیڑیا گھس آیا، لوگ اسے مارنے کے لیے دوڑے تو وہ گاؤں کے ایک حجرے میں آگیا۔ حجرے کا مالک اس وقت وہیں موجود تھا ۔ اس نے ایک برچھی لی اور دروازے پر کھڑا ہوگیا اور لوگوں کو للکار کر کہا ” خبردار ! یہ میرا مہمان ہے، کوئی شخص اسے مارنے کے لیے آگے بڑھا تو میں اسے چیر کر رکھ دوں گا”۔
یہ اقتباس ہے جاوید شاہ صاحب کی کتاب’ جو اکثر یاد آتے ہیں’ میں سے، جسے میں نے دو ہی نشستوں میں پڑھ ڈالا اور اسے ناقابل یقین حد تک بصیرت انگیز اور متاثر کن پایا۔ جاوید شاہ صاحب کی اس کتاب میں عہد گزشتہ کی دلچسپ داستانیں ہیں ،یہ تاریخی کہانیاں پڑھ کر خوشی ہوئی اور انہوں نے مجھے مسحور کر دیا۔ ان کی یہ تاریخی کہانیاں 70 سال پہلے کے کرداروں کو زندہ کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں سے جو کہانیاں ایک ساتھ بُنی ہیں ان میں مجھ جیسے تاریخ کے رسیا کے لیے ایک خزانہ ہے کیونکہ میں ان داستانوں سے اپنے علاقے کی گم شدہ اور مانند پڑتی ثقافتوں اور رسم و رواج کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے میں کامیاب ہوا۔ شاہ صاحب کی کہانیوں میں لوک داستانوں اور افسانوں کے عناصر بھی شامل ہیں جو ان سب کو مزید دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ ضلع اٹک بالعموم اور علاقہ چھچھ کے حالات و واقعات بالخصوص ان داستانوں کا حصہ ہیں۔
جاوید شاہ صاحب 1941 ء کو چھچھ کے گاؤں حمید میں پیدا ہوئے۔چوتھی جماعت تک گاؤں کے اسکول میں پڑھا اور پھر ایم سی مڈل اسکول کیمبلپور سے پانچویں پاس کی۔ پائیلٹ اسکول کیمبلپور سے میٹرک جبکہ ڈگری کالج کیمبلپور سے گریجویشن مکمل کی۔ آپ کے اساتذہ میں جناب اشفاق علی خانصاحب، جناب پرفیسر سعد اللہ کلیم صاحب ، جناب شریف کنجاہی صاحب اور جغرافیہ کے استاد جناب ضیاء اللہ صاحب کے نام نمایاں ہیں۔ضیاء اللہ صاحب کی صحبت کا اثر تھا جس نے آپ کو جغرافیہ کی طرف راغب کیا اور شاہ صاحب نے 1962 ء میں پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم کے بعد آپ نے بحیثیت پلاننگ آفیسر محکمہ بہبود آبادی میں ملازمت اختیار کی ۔ستمبر 1981 ء کو مارشل لاء کے ایک آرڈینینس کے ذریعے محکمہ بہبود آبادی کے ساڑھے سات ہزار ملازمین کو بیک جنبش قلم ملازمت سے برخاست کردیا گیا۔شاہ صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ نوکری ختم ہونے پر شاہ صاحب نے اے ایم ایف کامرہ میں ملازمت اختیار کی اور تین سال کے بعد محکمہ تعلیم میں محکمانہ امتحان و طریقہ کار کے مطابق بھرتی ہوگئے۔ آپ محکمہ تعلیم سے بحییثیت ہیڈ ماسٹر سبکدوش ہوئے۔جاوید شاہ صاحب ا نتہائی ملنسار ، ہنس مکھ ،روایت پسند اور بلا کے مہمان نواز ہیں۔ ممتاز شاعر جناب مشتاق عاجزؔ صاحب آپ کے انتہائی قریبی دوست ہیں ۔جاوید شاہ صاحب نے اس سال اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب “جو اکثر یاد آتے ہیں” شائع کی اور سب سے پہلے مجھے عنایت کی۔ میری سستی اور کوتاہی ہے جو تبصرہ کرنے میں اتنی دیر کر دی ۔
یوں تو پوری کتاب ہی ایک تاریخی دستاویز ہے لیکن میں شاہ صاحب کی کتاب میں سے چند ابواب کو یہاں مختصر طور پر ذکر کرتا ہوں۔ جو تاریخ اور ماضی میں جھانکنے والوں کے لئے یقینا دلچسپی کا باعث ہونگے۔
سپاہی صوبیدار نمبر 508 : تلہ گنگ سن 1985ء تک ضلع اٹک کی تحصیل تھا۔موضع لاوہ تحصیل تلہ گنگ کے ایک مجذوب سیّد شہابل شاہؒ کا روح پرور قصہ ۔
تین خوش لباس : علاقہ چھچھ ضلع اٹک کا خوبصورت ترین اور تاریخی علاقہ ہے۔ اس وادی کی تین نامور تاریخی شخصیات کا تذکرہ، چھچھ کے حجروں اور تہذیب و ثقافت کا احوال ۔
ایک تھا راجہ : سائیں کلوؒ سرکار کے جانشین سیّد انور شاہؒ اور راجہ اکرم صاحب کی پہلی ملاقات، ترک دنیا اور منازل سلوک کی داستان۔
ایک مشاعرہ : موضع ٹمن (تحصیل تلہ گنگ، جو اس وقت ضلع اٹک کا حصہ تھا) میں ہونے والے ایک مشاعرے کا احوال ،جسے ہل چلا کر آئے ہوئےایک کسان شاعر نے لوٹ لیا۔
راہ ہدایت : سرکار برطانیہ کی پولیس کے ایک بدتمیز، سخت گیر، بدزبان اور بد اخلاق حوالدار کا ماجرا جس کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ لوگ خوف کے مارےراستہ چھوڑ دیتے تھے بالآخر کیسے ایک ولی کامل کے درجے تک پہنچ گیا۔
رسُولا بدمعاش : تاریخی شہر حضرو کے ایک بدمعاش رسُولا کی کتھا جو کسی کو خاطر میں نہ لاتا جوئے باز اور ایک نمبر کا بدمعاش کیسے حاجی رسول خان بنا جس کی موت کا اعلان حضرو شہر کی ہر مسجد سے ہوا۔
ہاں کوئی اور بھی ہے: چھچھ کے ایک نائی کا قصہ جو مزدوری کی تلاش میں کراچی پہنچا اور پھر انڈر ورلڈ کا ایسا ڈان بن کر ابھرا جس سے سہگل، اصفہانی جیسے سیٹھ اور کراچی کے بڑے بڑے غنڈے خوف کھاتے تھے۔
ماہی نیاں وطناں توں : حاجی رمضان اور رتن لال کی بیٹیوں جمیلہ ، رضیہ، ساوتری، راجکماری کی دوستی ، تقسیم کے فسادات، ہجرت اور سکھ خاندان کا جانے سے پہلے درو دیوار سے لپٹ کر رونے کی دردناک داستان۔
اس کے علاوہ انجم اور پھول، مسیحا، دو شرابی، راہ ہدایت،ولیوں کا گاؤں، دو بے نمازی ، اکاون سال گاڑی کا انتظار اور بہت سے تاریخی چشم کشاء واقعات و داستانیں اس کا کتاب کا حصہ ہیں۔
ماضی کی یادیں اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ پرانے جذبات، واقعات اور یہاں تک کہ جسمانی احساسات تک کو واپس کھینچ لاتی ہیں۔ انہی یادوں میں اُن بیتی خوشیوں کے حسین خواب بھی ہوتے ہیں جن میں ہم دوبارہ جا بسنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اور یہی یادیں ان تلخ تجربات اور غلطیوں کی یاددہانی بھی ہو تی ہیں جنہیں ہم بھولنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ماضی میں ایک عجیب سی کشش ہے اور رہے گی۔ ہم حال میں جیتے کم ہیں، مستقبل کو سوچتے کم ہیں لیکن ماضی کو یاد بہت کرتے ہیں۔
یادداشتیں لکھنا کوئی معمولی کام نہیں ہے ، اس کے لیے غور و فکر اور خود شناسی کی ضرورت ہے۔ یہ فرد کی اپنی زندگی کی مکمل کھوج ہے، اور اس کام کے لیے ساعاتِ وقتِ گزشتہ کے کوہ گراں کا لمحہ لمحہ کریدنا پڑتا ہے۔ جاوید شاہ صاحب کمال یاداشت سے ماضی کے تعاقب میں بہت دور تک گئے۔ اور ان کا ماضی کا یہ سفر ہم سب کے لئے بہت کارآمد ثابت ہوا۔
مجموعی طور پر، میں نے واقعی اس کتاب کا لطف اٹھایا ہے ۔ یہ کتاب ماضی کے کرداروں اور واقعات کا انتہائی دلکش بیان ہے۔ ہر باب وقت میں واپسی کا سفر ہے جہاں میں نے خود کو پچھلی نسلوں کے جذبات کا تجربہ کرتے ہوئے پایا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اپنے سے پہلے لوگوں کے محرکات اور تاریخ کو سمجھنے کے سفر پر تھا۔یہ ایک بہترین کتاب ہے ، مصنف نے اپنی واضح کہانی سنانے اور تفصیلی وضاحت کے ساتھ ماضی کی داستانوں کو زندہ کرنے کا ایک بہترین کام کیا ہے۔ میں ان قارئین کو جو کتابوں سے دلچسپی رکھتے ہیں بالعموم اور ضلع اٹک کے تاریخ رسیاؤں کو بالخصوص یہ کتاب پڑھنے کی صلاح دیتا ہوں۔ یہ ایک جذباتی سفر ہے جو کتاب کے اختتام تک پہنچنے کے بعد بھی آپ کے ساتھ رہے گا۔
کتاب کے حصول کے لیے جاوید شاہ صاحب سے ان کے نمبر(03315708325) پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔