28اپریل2022ء کو قیامت برپا کیوں نہ ہوئی جس روز چند پاکستانیوں نے روضہ رسولؐ کی حرمت کو پامال کیا ۔۔۔ مدینہ شریف کے تقدس اور تعظیم کو خاطر میں نہ لایا ۔۔۔۔ شاید اللہ عزوجل ہمیں مزید مہلت دے رہا ہے یا کوئی آزمائش ابھی باقی ہے، ورنہ ابولہب نے جب ایک انگلی پیارے آقاؐ کی جانب اٹھائی تو اسی لمحے جبریل ؑامین تشریف لائے اور اللہ کا حکم سنایا ’’ابولہب! تیرے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور تو تباہ و برباد ہو جائے۔‘‘ اے اللہ! ہمیں معاف فرما اور ہماری عقلوں پر پڑے پردے دُور ہٹا۔ شہرِ مدینہ میں بپا ہونے والے اس ’’سانحہ‘‘ نے عشق و ایمان والوں کے دل دہلا کر رکھ دئیے جسے سب نے دیکھا اور سنا اس کی تفصیلات میں جانے کی عاصی کی مجال نہیں بس بار بار رونے کو جی چاہتا ہے اس روز بھی دل کا بوجھ اشکوں سے اٹھایا اور حالِ دل ایک درویش صفت فقیر نوجوان اسد ترک کے آگے بیان کیا۔ صوفی شاعر بابا غلام فرید ؒ فرماتے ہیں:
کِنوں حال سناواں دِل دا
کوئی محرم راز نہ مِلدا
قربان جائیں میرے ماں باپ، میری آل اولاد حضور پرنور، شافع یومِ نشور، فخرِ دوجہاں جناب رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ اعلیٰ پر۔۔۔ آپؐ کی بدولت ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور اپنے خالق کو پہچانا۔ تاریخ کی کتابیں کھولئے کھنگال ڈالیے پوری کائنات کے ہیرو، مذہبی پیشوا، سماجی مصلح، سیاسی راہنما آپؐ کے حضور توئی کامل، توئی کامل کا ورد کرتے سنائی دیں گے۔ یہ حقیقت تو حقیقت پسند غیر مسلموں نے بھی تسلیم کی ہے کہ آپؐ بلامبالغہ تمام خوبیوں کا مجسمہ اور کمالات کے پیکر ہیں۔ آقامدنیؐ کی سیرت کائناتِ عالم کے لئے مشعل راہ ہے آپؐ کی زندگی کا گوشہ گوشہ ، کتابِ زیست کا ایک ایک ورق ان زریں واقعات سے بھرا پڑا ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ساتھ ساتھ معاشی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے قابلِ تقلید نمونہ ہیں۔
نسبتِ خود بسگت کردم و بس منفعلم
زانکہ نسبت بہ سگِ کوئے تو شد بے ادبی
(میں نے خود کو آپؐ کے کتے سے نسبت دی اور اب شرمساری محسوس کر رہا ہوں کہ خود کو آپؐ کے کتے سے نسبت دینا بھی بے ادبی تھی!)
یہ سب کچھ دیکھ لینے کے بعد ہر مذہب کے مئورخوں کو اعتراف کرنا پڑا کہ آپؐ کی پوری زندگی مثالی ہے ایک ایک لمحہ یادگار، نقش تابندہ تھا اور ہے۔ اگر دُرِ یتیم کا مشاہدہ کرنا ہو تو ذرا غور کریں آپؐ نے 23سال کے مختصر عرصے میں جب ذرائع آمدورفت اور وسائل مواصلات بھی مفقود تھے ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دیا صنم خانوں اور گنبد ہائے طلسم سے بھی اللہ اکبر کی صدائیں سنائی دینے لگیں ۔ احمد ندیم قاسمیؔ کہتے ہیں:
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیراؐ
ایک وہ زمانہ تھا جب313نفوس کے مختصر گروہ نے غزوہ بدر کے موقع پر تعداد میں اپنے سے کئی گنا زائد کفار کو تہہ تیغ کیا ، پھر ایک اور موقع پر حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں صرف60مسلمانوں نے60ہزار رومی فوج سے ٹکر لی اور پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ اگر قوتِ ایمانی زندہ ہو اور جذبے صادق ہوں تو دشمن تعداد اور وسائل میں چاہے کتنا ہی طاقتور اور بڑا کیوں نہ ہو تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ آج نہ جانے کیوں اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے کہ اکثریت اقلیت سے، اہلِ حق باطل سے، مسلمان غیر مسلموں سے مار کھا رہے ہیں شاید اس کا سبب یہ ہے کہ ہم قرآن کے بجائے ناول، عشق رسولؐ کی جگہ لذتِ دنیا، روحانیت کے بجائے مادیت، جہاد کے بجائے سکوت اور مکہ ومدینہ سے اپنا رشتہ توڑ کر ماسکو اور واشنگٹن سے جوڑنے پر مصر ہیں۔ علامہؒ فرماتے ہیں:
کعبہ پہلو میں ہے اور تو سودائی بت خانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوقِ بے پرواہ تیرا
فدا کرتا رہا دل کو حسینوں کی ادائوں پر
مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے ظالم اور جابر حکمران گزرے ہیں جن میں ایک خسرو پرویز بھی تھا جو ایران کا حاکم تھا ۔ اس کی آمرانہ ملوکیت کے باعث ایرانی حکمرانوں سے اخلاقی طور پر ایسی ایسی گھٹیا حرکتیں سرزد ہوئیں جنہیں پڑھ کر آج بھی شرافت سرجھکا لیتی ہے اور عرق النفعال میں ڈوب ڈوب جاتی ہے۔ خسرو کے حرم مین تین ہزار بیویاں تھیں علاوہ ان ہزار لونڈیوں کے جو اس کی خدمت کرتی تھیں اور رقص وسرور کی محفلوں کی زینت بنتی تھیں مزید تین ہزار خدمتگار تھے، آٹھ ہزار گھوڑے،760ہاتھی اور 12 ہزار باربرداری کے لئے خچر ، جبکہ سونے جواہرات کے قیمتی ظروف کا اس سے بڑھ کر کوئی شوقین نہ تھا ۔ ایک اور حکمران نوشیر وان جو دنیا میں ’عادل‘ کے لقب سے مشہور ہے جب وہ سربراہ بنا تو اس نے اقتدار کی خاطر اپنے سترہ سگے بھائیوں کو قتل کر دیا تھا۔
اس عظیم ’’سانحہ ‘‘ پر دلبرداشتہ قلم اتنے روز سے الفاظ کے چناؤ میں غلطاں رہا کہ جوشِ جذبات میں ہوشِ آداب زیادہ اہم اور ضروری ہو جایا کرتے ہیں۔ افسوس ہے ان پر جنہوں نے اگر مذمت کی بھی تو اگر، مگر کے ساتھ۔ اے شہنشاہوں کے شہنشاہؐ! دعاگو ہوں کہ یہ شکستہ اور ناپائیدار حروف اپنی بارگاہِ ناز میں قبول فرمائیں، آپؐ کے بحرِ جود وسخا کی خنک اور شیریں موجیں تشنگانِ ہردوعالم کو سیراب کر رہی ہیں اور تاابد سیراب کرتی رہیں گی۔ اے سلطانِ حسینانِ جہاںؐ! ایک مفلس و کنگال منگتا خالی جھولی لے کر تیرے حسن و جمال کی خیرات لینے کے لئے حاضر ہے اور اپنے مرشد پیر ثانی سرکار کو وسیلہ بناتے ہوئے دست بستہ عرض گزار ہوں کہ اپنے قدمین میں ایک بار پھر حاضری کی اجازت مرحمت فرمائیے۔ الٰہی! جو شان فضل و کمال، جو صوری محاسن اور معنوی خوبیاں تو نے اپنے حبیب حضرت محمدﷺ کو عطا فرمائی ہیں ہمیں ان کا صحیح عرفان اور پہچان بھی نصیب فرما۔ آمین
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔