وفائے جفا نما
حصول ثواب، دفیعہ شر، پناہ عذاب، تذلیل ابلیس اور صدقہ جاریہ کا جس قدر موثر، مکمل اور مسلسل ذریعہ اس دور میں فیس بک ہے اور جس رفتار سے رواج پذیر ہے وہ دن دور نہیں جب نماز باجماعت بھی شامل عنوانات بالا ہو جائے گی۔
اب کنویں کھدوانے ، درخت لگانے یا عہد رفتہ کے کسی بھی طریقہ کی کوئی اہمیت شاید نہیں رہی۔ فجر میں اٹھنے کی ضرورت نہیں، شام میں لوٹنے کی حاجت نہیں، لانگ ڈرائیو پر جائیے، پارٹیوں کے مزے لوٹیے پھر رات گئے گھر آکر چند منٹ فیس بک پر آجائیے صدقہ جاریہ بھی کیجئے، ثواب بھی کمائیے اور شیطان کو بھی جلائیے اور اب تو موبائل نے یہ مشکل بھی آسان کر دی جہاں آپ وہاں ثواب۔
پہلے اگر آلو پر ، بکری پر کوئی عکس معجز نما ابھر آتا تھا تو گاوں کے چند لوگ ہی اس کی زیارت سے شرف یاب ہوتے تھے اور آج فیس بک کی بدولت پوری دنیا میں ہر اسود و احمر، ابیض و اصفر اور ان تصاویر و تحاریر کو شئر در شئر کرنے والے دانشور سب کے سب ثواب دارین کے خزانے بھرتے چلے جا رہے ہیں، صرف مجھ جیسے چند کم علم اس کار خیر سے محروم بھی ہیں اور مذکورہ بالا دانشوروں کی نظر میں مسلمان بھی نہیں کیونکہ شئر نہ کرنے والے کے لئے یہ وعید بھی لکھی ہوتی ہے۔
آیات، احادیث اور دیگر شعائر اسلامی کے ساتھ کس قدر مضحکہ خیز عبارات لکھی ہوتی ہیں؟ کبھی غور کیا آپ نے؟ کبھی ۸۰ فیصد املا کی غلطیاں محسوس کیں آپ نے؟ بخاری، مسلم اور ترمذی کے حوالے لکھنے والوں میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے ان کتب کو حقیقت میں دیکھا بھی ہوگا؟ اور اگر فیس بک ہی صدقہ جاریہ کا ذریعہ ہے تو اس کے بانی کے بارے میں کیا کہتے ہیں آپ؟ کنواں تو اسی نے کھودا باقی تو پانی ہی تقسیم کررہے ہیں نا۔
مجھے شاعر مشرق کا ایک شعر اس صورت حال کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
گلہِ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری
مخدوم آغا سیّد جہانگیر علی نقوی البخاری
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔