انسانوں اور چیزوں سے محبت خدا سے محبت ہے
محبت باعث برکت و رحمت ہے۔ کہتے ہیں کہ محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ ہم یہ محاورہ پچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ اس میں کچھ بات ہی ایسی ہو گی کہ یہ مقولہ ناجانے کب کسی نے کہا اور پھر آج تک ہم سنتے ہی چلے آ رہے ہیں کہ، "محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے۔” لیکن عام چیزیں تو بانٹنے، تقسیم کرنے یا خرچ کرنے سے کم ہوتی ہیں مثلا رقم یا پیسے ہی کو لے لیں تو اسے جتنا جلدی خرچ کریں گے یہ اتنا ہی جلدی ختم ہو جائے گا۔ اسی لیئے دنیا کم خرچ کرنے والوں کو کنجوس کہتی ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ "اک دن تے کھوہ وی مک جاندے نے” یعنی اگر کسی پانی بھرے کنویں سے پانی مسلسل نکالتے رہو تو ایک دن وہ بھی سوکھ جاتا ہے۔ یہ ایک اعداد و شماری اور مساواتی حقیقت ہے کہ گنتی کی ہر وہ شے جسے استعمال کیا جائے وہ کم ہوتی ہے مگر محبت میں کچھ ایسی صداقت ہے کہ یہ بانٹنے اور خرچ کرنے سے بڑھتی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ محبت ایک "تبادلاتی جذبہ” ہے کہ آپ جس سے محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں بدلے میں وہ بھی آپ سے محبت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ یوں دونوں طرف کی محبت ایک دفعہ محبت کے ساتھ پیش آنے سے دگنا ہو جاتی ہے۔ جب آپ بار بار کسی کے ساتھ محبت سے ملتے رہتے ہیں تو محبت اسی قدر دگنا مقدار سے بڑھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ کسی سے جتنی بار محبت سے پیش آتے ہیں محبت اسی قدر عقیدت میں بدلنے لگتی ہے۔ یہاں تک کبھی کبھی کسی سے آپ کی محبت مقدس عشق کا درجہ و مقام حاصل کر لیتی ہے۔
یہ محبت کی اخلاقی اور جذباتی معنویت ہے جس کا آغاز عام انسانوں کے درمیان ایک دوسرے کی عزت و احترام کرنے سے ہوتا ہے۔ میں نے یہ چیز سرمد خان سے سیکھی ہے کہ ان سے کوئی اجنبی بھی ملے تو وہ ان سے مانوس ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اس سے بھی اتنی ہی محبت سے پیش آتے ہیں جتنی محبت سے وہ اپنے پرانے دوستوں سے پیش آتے ہیں۔ میں اپنی ذاتی رائے میں محبت سے زیادہ "عزت” کو اہمیت دیتا ہوں کیونکہ آپ جسے عزت نہیں دیتے ہیں اس کے دل میں محبت کی جوت نہیں جگا سکتے ہیں۔ محبت تو پھر محبت ہے۔ اگر آپ کسی کی عزت کرتے ہیں مگر اس کی دل سے قدر نہیں کرتے ہیں یعنی آپ کے دل میں اس کے لیئے کوئی محبت نہیں ہے تو ایسی عزت خوشامد یا خوف کے ضمرے میں آتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسا اخلاق بھی کسی کام کا نہیں جس میں دل سے کسی کے لیئے عزت و محبت نہ ہو۔ اخلاق تو ویسے ہی آپ کا ایک ظاہری رویہ ہے جو بعض دفعہ فطری طور پر لوگوں کو ودیعت کیا گیا ہوتا ہے۔ با اخلاق لوگ سب افراد سے بلاتفریق اخلاق سے پیش آتے ہیں کیونکہ محبت ان کے اندر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
وہ لوگ انتہائی خوش نصیب ہوتے ہیں جن میں محبت، عزت اور اخلاق جیسی یہ تینوں صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
محبت کا یہی عالمگیر جذبہ ہے جو سب کے لئے ہوتا ہے، جس میں کسی قسم کی رنگ و نسل، قوم یا مذہب وغیرہ کی تفریق نہیں ہوتی ہے۔ ایسا انسان کسی سے محبت نہیں کر سکتا جو ایک سے تو محبت کرے مگر دوسروں سے نفرت کرے یا ان کے ساتھ کدورت کے ساتھ پیش آئے۔ ایسی محبت جو مخصوص لوگوں کے لیئے ہو تعصب اور منافقت پیدا کرتی ہے۔ آپ نے کسی کی محبت کے معیار و مقام کا تعین کرنا ہے یا اس کی اصل پہچان کرنی ہے تو آپ یہ دیکھیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ کتنی محبت اور عزت و احترام سے پیش آتا ہے۔ اگر دوسروں کے لیئے اس کا رویہ تلخ اور ترش ہے یا وہ روزمرہ کے معاملات میں اخلاق کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے تو یقین کر لیں کہ اس کی آپ سے ظاہری محبت دراصل دوغلا پن اور منافقت ہے۔
ایسا دہرا معیار رکھنے والے لوگ جتنی مرضی محبت تقسیم کریں محبت بانٹنے سے بڑھے گی نہیں بلکہ گھٹے گی کہ محبت کا ایک آفاقی پہلو یہ ہے کہ یہ سب انسانوں سے کی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ ہر اس چیز سے کی جاتی ہے جو مالک نے تخلیق کی ہے۔
محبت کے لغوی معنی پریت، الفت، چاہ اور رغبت وغیرہ کے ہیں جو تصوف کے اعتبار سے ایسی توجہ ہے کہ جو زمانے، اشیاء اور انسانوں سے گزر کر آپ کا ناطہ خدا سے جوڑ دیتی ہے جس کے بعد آپ میں وہی اعلیٰ انسانی صفات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ان کے حسب و نسب کچھ اوصاف آپ میں بھی جلوہ گر ہو جاتے ہیں جو ذات باری تعالٰی کی صفات کا حصہ ہیں۔
یوں خدا کی بنائی ہوئی چیزوں سے آپ مُحبت نہیں کرتے تو خدا سے آپ کی محبت ناقص ہے کیونکہ چیزوں کے باطن میں خدا جلوہ گرہے کہ "ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الہی سے”۔
حضرت موسی کے ساتھ ایک واقعہ روایت ہے کہ آپ جس راستے سے کوہ طور پر خدا سے گفتگو کرنے جاتے تھے اس میں ایک گڈریا پڑتا تھا۔ حضرت موسی دیکھتے تھے کہ وہ گڈریا اپنی بھیڑوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ اکثر وہ گڈریا بھیڑوں کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اور کہتا کہ کاش تیرا بنانے والا مجھے ملے تو میں اسے نہلاوں، اس کی کنگھی کروں اور اس کے بال سنواروں۔ ایک دن یہ گڈریا یہی باتیں اپنی ایک بھیڑ کو پکڑ کر، کر رہا تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو غصہ آ گیا۔حضرت موسی علیہ السلام بہت جلال والے پیغمبر تھے۔ آپ علیہ السلام نے اسے پکڑ کر سختی سے مارا تو اس کے منہ سے آگ نما آہ نکلی۔ حضرت موسی جب کوہ طور پر اللہ سے کلام کرنے پہنچے تو اللہ نے موسی علیہ السلام سے بات نہیں کی اور کہا کہ جاو’ پہلے اس گڈریا کو راضی کرو۔
ایسی دینی و مذہبی روایات میں انسانوں کے لیئے کوئی نہ کوئی اخلاقی پیغام ضرور ہوتا ہے اور ہر پڑھنے اور سننے والا اسے اپنے ذہنی معیار کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس خدا نے موسی علیہ السلام کو تخلیق کیا اس گڈریئے کو بھی اسی خدا نے پیدا کر کے انسان ہونے کا شرف بخشا۔ بحیثیت انسان جہاں کردار و اوصاف انسانوں میں ان کی پہچان کا موجب ہیں وہاں ان کی مٹی سے ایک جیسی تخلیق پوری انسانیت کو ایک لڑی میں پروتی ہے کہ: "صورتیں الگ الگ سہی مگر لہو کا رنگ ایک ہے۔” جو ظاہر ہے کہ سب انسانوں کو ایک ہی خدا کی طرف مراجعت کرواتا ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔