فتح جنگ کی بلدیاتی سیاست

تحریر :آصف جہانگیر  ، فتح جنگ

1-فتح جنگ شہر میں کھٹر خاندان کو مالکانہ حقوق حاصل رہے ہیں۔ کھٹڑ قوم کی تاریخ کے مطابق عبداللہ خان عرف کھٹڑ خان کے چھ بیٹے تھے۔جن میں سے فیروز خان کی اولاد کھٹڑ فیروزوال کہلاییٗ۔جوکہ فتح جنگ میں آکے آباد ہوےٗ۔

2-فتح جنگ کا نام ان کے آنے سے پہلے سندر راکھی تھا۔جب فتح جنگ کا مورث اعلی فوت ہوا تو ان کے تین بیٹوں جلال خان، شیر خان اور علی محمد خان میں برابر حصہ کے مطابق تقسیم کیا گیا۔

3-فتح جنگ شہر میں بلدیاتی اداروں کی داغ بیل ڈالی گیٗ تو نوٹیفایٗیڈ ایریا کی سیاست میں ایک نمایاں نام خان سمندر خان کا تھا۔

پھر بعد میں جب 1924ء میں سمال ٹاوٗن کمیٹی بنی تو خان سمندر خان اس کے پہلے وایٗس پریذیڈنٹ بنے۔ان کے بعد سردار نواب خان آف گڑھی حسو خان کا دور شروع ہوا۔ اور ان کے بعد فتح جنگ کی مقتدر شخصیت ذیلدار محمد خان وایٗس پریذیڈنٹ رہے۔جبکہ سردار محمد نواز خان آف گڑھی حسو خان پریذیڈنٹ مقرر ہوےٗ۔

4- سن1951ء میں پاکستان کے بننے کے بعد پہلے بلدیاتی انتخابات میں سردار محمد اقبال خان آف شہر راےٗ سعداللہ کامیاب ہوےٗ-,اور پھر 1956کے الیکشن میں سردار اقبال خان دوبارہ پریذیڈنٹ بنے۔سردار اقبال صاحب پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء سردار محمد علی خان کے دادا تھے ۔

5-سن1958کے الیکشن صدر ایوب خان کے متعارف کردہ بی ڈی سسٹم کے تحت ہوےٗ۔ان الیکشنز میں ایک نمایاں نام جو ابھر کر سامنے آیا وہ سردار محمد عزیز خان کا تھا۔سردار عزیز احمد خان 1979کے بلدیاتی انتخابات میں دوبارہ ممبر منتخب ہوےٗ۔ اس کے بعد 1987 کےالیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوےٗ۔21جنوری 1988 کو بلدیہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اسسٹنٹ کمشنر عطاء اللہ خان سے چارج لے لیا گیا۔سردار عزیز احمد خان اس وقت مالیاتی کمیٹی کے سربراہ منتخب ہوےٗ تھے۔اس وقت بلدیہ کا بجٹ تقریبا 65 لاکھ کے قریب تھا۔

فتح جنگ کی بلدیاتی سیاست
فتح جنگ کے ایک سیاسی جلسے کی تصویر بشکریہ سردار ساجد محمود خان آف پنڈ فضل خان

6-انیس سو اکانوے کے الیکشن میں سردار عزیز احمد خان ایک بار پھر ممبر منتخب ہوےٗ۔اس دور میں وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وایٗیں نے فتح جنگ شہر کے لیے واٹر سپلاییٗ سکیم منظور کی۔اس واٹر سپلاییٗ سکیم کے لیے ایک کروڑ بیس لاکھ کی گرانٹ منظور کی گیٗ۔اس سکیم کی منظوری کے بعد فتح جنگ شہر کے لیے پانی کی سپلاییٗ ممکن ہوییٗ- وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب کی خصوصی گرانٹ سے شہر میں مزید پایٗپ لایٗنز ڈالی گٗین 

7-انیس سو اٹھانوے کے الیکشن سردار عزیز احمد خان کے ساتھ ان کے بیٹے سردار افتخار خان بھی کامیاب ہوےٗ۔سردار افتخار احمد خان انتہاییٗ ہونہار اور متحمل مزاج نوجوان ہیں۔جن کی تربیت سردار عزیزاحمد خان نے اپنے زیر سایہ کی۔سردار افتخار احمد خان نے سیاست کے اسرارورموز اپنے والد سردارعزیز احمد خان سے سیکھے۔1998 کے الیکشن میں کامیاب ہونے والے ممبران کا اجلاس 4جنوری 1991 ء کو منعقد ہوا۔

8-اسی سال وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اٹک تشریف لاےٗ تھے۔اور انہوں نے فتح جنگ شہر کے لیے شاہ پور ڈیم کے پانی کے لیے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی۔ 

9-اکتوبر 1999 میں پاکستان میں ایک نےٗ دور کاآغاز ہوا۔جنرل پرویز مشرف ایک فوجی انقلاب کے ذریعے منظرعام پر آےٗ۔قومی و صوباییٗ اسمبلیاں اور تمام بلدیاتی ادارے ختم کردیے گےٗ۔اور کافی غوروغوض کے نےٗ بلدیاتی اداروں کا نظام منظر عام پر آیا جسے ضلعی حکومتوں کے نظام کا نام دیا گیا۔اس نظام میں ملک کے تمام شہری اور دیہی علاقوں کو یونین کونسلوں میں تقسیم کردیا گیا۔ہر یونین کونسل میں ناظم اور نایٗب ناظم نےٗ متعارف کراےٗ گےٗ۔تحصیل کی سطح پر تحصیل ناظم اور ضلع کی سطح پر ضلع ناظم اس دور میں ہی متعارف کراےٗ گےٗ۔

تحصیل ناظم اور ضلع ناظم کے لیے ہر یونین کونسل کے ناظمین نے ووٹ ڈالنا تھا۔

10-جولاییٗ 2001ء میں سردار افتخار احمد خان فتح جنگ میں تحصیل ناظم کے طور پر منتخب ہوےٗ۔سردار افتخار احمد خان 1969 میں پیدا ہوےٗ۔میٹرک1987 میں گورنمنٹ ہاییٗ سکول فتح جنگ سے کیا۔ 1989ء میں گورنمنٹ کالج اٹک سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد پاک فوج میں بطور کمشن آفیسر شمولیت اختیار کرنے کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی جایٗن کی۔لیکن سردارافتخار دل میں علاقے کی سیاست کا عزم رکھتے تھے۔اس لیے فوج کو خیر آباد کہہ دیا اور سیاست میں متحرک ہوگےٗ اور پہلی دفعہ 1998ء میں بلدیہ فتح جنگ کے ممبر منتخب ہوےٗ۔

11-بعد میں جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ نےٗ بلدیاتی نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں 2001ء میں سردار ممتا ز خان آف ماجھیا کے ساتھ ایک زبردست مقابلہ کے بعد تحصیل ناظم کا الیکشن جیتا اور 14اگست 2001ء کو حلف اٹھا کر بطور تحصیل ناظم فرایٗض سرانجام دینا شروع کردیے۔

اختیارات اور عہدہ کے لحاظ سے بطور تحصیل ناظم کا گذشتہ ادوار کے کسی بھی بلدیاتی ادارے کے سربراہ سے تقابل نہیں کیا جاسکتا

12- الیکشن 1918میں سردار افتخار مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے۔ 

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

پروفیسر عبد الجبار عبد سے گفتگو

منگل جون 14 , 2022
یں نے اپنی مادری زبان سندھی میں شاعری کی ہے۔ تقریباً اتنی شاعری ہوگی کہ ایک کتاب بن جائے۔ نثری یا آزاد شاعری کی کتاب علیحدہ ہے
پروفیسر عبد الجبار عبد سے گفتگو

مزید دلچسپ تحریریں