تبصرہ: معظمہ شمس تبریز (رحیم یارخان)
علمی و ادبی مجلہ ’’شعوروادراک‘‘۔ کتاب نمبر 5 (جنوری تا مارچ 2021ء) میں شامل خصوصی گوشہ’’سید محمد فاروق القادری‘‘ پر تبصرہ
دیکھیے ساغر کی آشفتہ نگاہی کا کمال
مستیاں چھلکا رہا ہے ایک دیوانے کا نام
اس شعر کے مصرعہ اولیٰ میں ساغرؔکی جگہ شاہد رکھ لیں توحسبِ حال ہو جائے گا اور ہمارے ممدوح محترم کی ادبی فتوحا ت کا عکاس بھی ہو جائے گا۔ حفیظ شاہد ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک دبستان ِادب کا نام ہے جس کے دائرہ فیض رسا میں کربل ِادب میں العطش پکارتے متعدد ادیبوں، شاعروں اور قلم کاروں کو نہ صرف جام جاں فزا نصیب ہو جاتا ہے بلکہ ھل من مزید کو بھی رخت ِقرار دان ہو جاتا ہے اور علمی، ادبی اور شعری تڑپ کو یہ مژدہ جان فزا بھی میسر آتا ہے کہ
’’آج ہیں وہ مائل بہ عطا اور بھی کچھ مانگ‘‘
قرآن ِمجید فرقان ِحمید کی آیات کے شان نزول اور احادیث مبارکہ کے مقامی پس ِمنظر پر غور کرنے سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اقوال اور افعال کی اہمیت ان کے وقوع کے حالات ِحاضرہ کے مطابق اہمیت کے گراف میں بلندی پاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح محمد یوسف وحید کی پے درپے ادبی فتوحات کے بیک پر جو خلوص اور خود وقفی کا جو جذبہ کارفرما ہے اس کو بھی کرونا ایسی قدرتی آفت کے ہوتے ہوئے سورج کی اَجلی تمازت اور عوام کی سرد مہری کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ صرف ایک کام نہیں بلکہ ’’مہا کار‘‘ ہے۔ صرف ادب کی دُھن نہیں، ’’ادب سے عشق‘‘ کی معجزہ نمائی ہے۔ ہم ابھی ’’شعور و ادراک‘‘ کی کتاب نمبر 5میں محقق العصر، آبروئے قلم، فخر سادات، طبیب روحانی اور عالمی سطح کے مصلح حضرت علامہ پیر سید محمد فاروق القادری کی ادبی فتوحات کو خراج ِتحسین پر مبنی خصوصی گوشے کی اشاعت پر محمد یوسف وحید کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرنے کی نیت سے الفاظ بنا رہے تھے کہ خبر ملی کہ کام کے اس جویانے آسمان ادب کے نہایت سخی سورج حفیظ شاہد کے فنی سفر کے بارے میں مخصوص گوشے پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ آج 28جولائی 2021ء ہے اور 30جولائی کو ہمارے فائنل ائیر کے پیپرز شروع ہیں لیکن ہم نے بابا جانی کے تکیہ کلام
’’ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں‘‘
کے زیرِ اثر حفیظ شاہد کے قلمی کارناموں اور محمد یوسف وحید کی ادبی خدمات کے لیے وقت نکال لینے کا فیصلہ کیا اور کامیاب رہے۔ بات چانس کی ہے اور صنف ِنازک کو ہانڈی چولہے تک محدود رکھنے کی دقیانوسی رسم اور صدیوں پرانے رواج کے ہوتے ہوئے محمد یوسف وحید ایسے افراد نے جس طرح راہیں نکالنے کی داغ بیل ڈالی ہے اور گوشۂ نشیں ٹیلنٹ کو پروان کے مواقع فراہم کرنے کاعملِ خیر دامے،در مے، سخنے جاری رکھنے کا قصد کیا ہے تو ہم نے بھی پیغامِ امن اور آشا کی برقراری کے اس قاصد کی آواز پر لبیک کہنے میں فخر محسوس کیا ہے کہ جس نے حفیظ شاہد ایسے کہنہ مشق اُستاد الشعراء اور وسیب کا دَرد رکھنے والے قلب بیدار اور دیدہ وا کے حامل فرد ِدرویش کے پیغام کی تفہیم و تبلیغ کا بیڑا اُٹھایا ہے، لازم ہے کہ اتنے بڑے انسان کے تذکرے کی کاوش ہماری جستجو کے کشکول میں بھی جواہراتِ وردانیہ کا اضافہ کرے گی اور ہم بھی چانس ملنے اور اس کو Availکرنے کے فرض سے سبکدوش قرار پائیں گے ورنہ ہم نے دیکھا ہے کہ عوامی اذہان میں سمایا جہالت کا لٹو کبھی بھی گھوم سکتا ہے اور لڑکیوں کی آزاد ی کے سارے نعرے کھوکھلے لگنے لگتے ہیں۔ یاد رہے کہ آزادی سے ہماری مراد ٹیلنٹ کے اظہار اور نکھار کے مواقع کی فراہمی کی آزادی ہے۔ صد شکر کہ ہم اس عظیم بابا جانی کی بیٹی ہیں جن کی حیات اعتبار سے عبارت ہے اور ان کا یہ قول جو ہمیں پانچویں جماعت میں بالکل سمجھ نہ آیا تھا آج بخوبی ہم دوسروں کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ بابا جانی کا قول ہے:
’’جس کو اپنی بیٹی پر اعتبار ہو وہ کتے نہیں پالا کرتا۔‘‘
’’ہاتھی دانت‘‘ کی طب میں بڑی اہمیت ہے مگر ’’ہاتھی دانت‘‘ صرف محاورہ ہی نہیں جو کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوا کرتے ہیں۔
ہم نے فروغ ِتعلیم کا ناٹک کرنے والے ایسے نامہرباں بھی دیکھے ہیں، مسابقت کے خیال سے اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے بعد ان کی مزید تعلیم کے بھی خلاف حتیٰ کہ حاصل کردہ تعلیم کے لیے مدرس کے کردار کے بھی خلاف الغرض وہ بیٹیاں محفل میں شہزادیاں اور تنہائی میں پتھر کے دور کی مورتیاں ہیں جن کی سانسوں کو بھی مجبوراً برداشت کیا جاتا ہے۔ ہماری چند عزیزائیں زندگی کے اس کربناک سچ کا سامنا کر رہی ہیں اور ہم اپنے امتحان سے فراغت پاتے ہی ان کے حوالے سے ’’سسکتی سانسیں‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس میں بھی اسی چانس، حوصلہ افزائی اور جستجو کا کردار ہو گا جومحمد یوسف وحید کی ادب شناسی اور حق نگاری ہم جیسے کئی گم نام والے قلم کاروں، ادیبوں اور ٹیلنٹڈ پرسنز کے دم قدم سے حاصل ہوئی ہے۔ وقت کے دامن میں وُسعت ہوتی تو ہم اس کارِخیر میں اپنے حصے کا کردار نبھاتے کیونکہ ادبی خدمت کی وجہ سے ہمارے اندر کے انسان نے ایک جرأت کا احساس اُجاگر کر لیا ہے اور جب کبھی ہم ادبی بے ادیبوں اور اسی قبیل کی زبوں حالیوں کے گواہ ہوتے ہیں تو پھر محمد یوسف وحید جیسے کرداروں کا خیال اس شعر میں ڈھل کر قرطاس ِذہن پر نمایاں ہو جاتا ہے۔
کہہ رہے ہیں چند بچھڑے رہبروں کے نقشِ پا
ہم کریں گے انقلابِ جستجو کا اہتمام
حفیظ شاہد کی شاعری مقام ِپیغمبری کے تمام تر تقاضے بطریق ِاحسن نبھاتے ہوئے ملتی ہے۔ فنی پختہ کاری سے تبلیغ کے تمام تر پہلو جمع کر کے اصلاحِ احوال کی بہترین سبیل کر لی گئی ہے اور معنویت کے لحاظ سے ہر شعر ایک الگ ملک کی سیر اور تخلیق کار کے قلمی عروج کا بالکل اسی طرح بین ثبوت فراہم کرتا ہے جس طرح حضرت پیر علامہ سید محمد فاروق القادری کی شہرہ آفاق تصنیف ’’اصل مسئلہ معاشی ہے‘‘ پڑھنے کے بعد اس عظیم محقق اور رمز شناس انشاپرداز کے عالم علوم میں بس ہر فن مولا ہونے کا بین ثبوت فراہم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے مؤقف کی تائیدکے لیے یہ اشعار آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں اور آپ کوفیصل قرار دیتے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ ان کی قوتِ مشاہدہ، فکری پرواز،مطالعہ کی کرشمہ سازی اور قلم کا جادو کس طرح سر چڑھ کر بولنے پر ہر آن آمادہ ملتا ہے۔
کچھ نہیں رکھتے ہیں اپنے آپ کی پہچان بھی
ہیں ابھی تک مبتلا ایک فخر آبائی میں ہم
٭
ہماری فکر تم چھوڑو ہمیں یہ کام آتا ہے
اندھیروں میں بسر کرنا نظر میں کہکشاں رکھنا
٭
گلوں کی بات اگر باغبان نہیں کرتا
تو پھر جہاں میں کوئی ترجمان تلاش کروں
ان تین اشعار کے احاطے میں شاعر نے دشتِ عشق میں خود فراموشی اور پدرم سلطان بود کے سماجی ہتھکنڈے کا خوب بیان کیا ہے۔پھر دوسرے منظر میں کسی بھی حال میں زندگی کر کے مثبت روی کو رواج دینے کا درس دیا جا رہا ہے اور پھر احبابِ اختیار اور عائلی زندگی میں ذمہ داری سے انکار پر احتجاج خو ب صورت اور مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
الغرض حفیظ شاہد کی شاعری میں عام فہم الفاظ کے جادو سے اثر پذیری کے عمل کو معراج کرنے کا پورا پورا انتظام موجود ہے۔تسلسل اور سلاست کا حسن تو گویا کوئی ان سے سیکھے۔ شعور انسان کی وہ دولت ہے جو وردانِ خداوندی ہے اور اسی کی وجہ سے وہ مسحورِ ملائکہ بھی قرار پایا ہے لیکن ادراک نہایت ضروری ہے ورنہ امرت سرہانے ہوتے ہوئے بھی زہر کے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔’’شعور و ادراک‘‘ کا کتابی سلسلہ جتنا تعریف و توصیف کا متقاضی ہے امتحانات کی وجہ سے ہم وقت کے دامن میں تنگی محسوس کرتے ہوئے ایک اعتراف آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو بعد میں دور حاضر کے منکرین اور معترضین کے زباں و دل پر بھی ضرور ظاہر ہو گا کہ’’شعور و ادراک‘‘ کا مزید سفر مشقت اور ولولے کے بل بوتے پرگوہر شناس بھی ہو چکا ہے اور سلیقے سے مالا پرونے کا ہنر بھی سیکھ چکا ہے۔جس کا ثبوت ’’شعور و ادراک‘‘ کا فنی ارتقاء اور لمحہ لمحہ بڑھتی ہوئی ہر دلعزیزی ہے۔ مزید خوشی یہ ہے کہ محمد یوسف وحید نے صنف ِنازک سے جڑے ادب کو تلاش کر کے ادب کو نزاکت آفریں کر دیا ہے۔ نئے لکھاریوں کی جستجو بھی بدستور جاری ہے ورنہ ادب اور ادیب یوں نوحہ کناں پائے جاتے تھے کہ
کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
صنف ِنازک کی حوصلہ افزائی دراصل حوا کی بیٹی کے لیے آکسیجن کی فراہمی کا درجہ رکھتا ہے جس کے لیے’’شعور و ادراک‘‘ کے مدیر:محمد یوسف وحید مبارک باد کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ ورنہ حال تو یوں تھا:
دفنا دیا گیا مجھے چاندی کی قبر میں
میں جس کو چاہتی تھی وہ لڑکا غریب تھا
آخر میں ہم بصد مسرت برمحل اعتراف کرتے ہیں اور اہلِ دل،اہل ِذوق ِادب کے محقق اور تاریخ نویس کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ محمد یوسف وحید بطور ِخوگر عمل اور پیکرِ اخلاص، الرجال الخیر میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھ چکے ہیں۔
ہم لیلیٰ ٔادب کے قیس بے مثال محمد یوسف وحید کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ جس نے اس مشکل گھڑی میں بھی ادب کی خدمت سے روگردانی ہرگز نہیں کی جب کرونا کی آڑ میں بہت سے سہل پسند شعرا، ادیبوں اور قرطاس و قلم کے خدائی فوجداروں کو آرام گاہ بھی میسر آئی تھی اور فرصتِ مطلوبہ بھی مہیا رہی تھی۔
’’شعور و ادراک‘‘ کا لفظ ہی ان کی شخصیت کی مخفی بلندی کا پتہ دیتا ہے۔ خصوصاً مختلف نامور اہل فن حضرات کے لیے مخصوص گوشے کا اہتمام ان کے لیے ہر دلعزیزی اور عمل سے سونا بننے کا انتظام و اعلان ثابت ہو چلا ہے۔
یوسف وحید نے بچے بن کر سچے کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے کئی کتابچے ان کی بیدار مغزی کا قصیدہ قارئین کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ نامور ادیب حیدر قریشی کے حوالے سے’’ شعور و ادراک‘‘ کتاب نمبر 4میں’’ حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر‘‘ کی اشاعت اور پھر’’ شعور و ادراک‘‘ کتاب نمبر 5میں عالمی شہرت یافتہ محقق ،ادیب ،عالم، کالم نویس ،مقالہ نگار ، فاضل اور شاعر حضرت علامہ پیر سید محمد فاروق القادری آف شاہ آباد شریف کی علمی ادبی فتوحات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خصوصی گوشے کی اشاعت جہاں بے مثال ادبی کارنامے ہیں وہاں دھرتی سے محبت اور جرأت کی بھی بہترین کاوش ہے۔
اسی تسلسل میں حفیظ شاہد کے حوالے سے مخصوص گوشہ بھی ان کی سابقہ کامرانیوں میں مزید بہتری کا اضافہ کرے گا۔باتیں اور کام دونوں ہونے کے لیے ہوتے ہیں، ہوتے رہے ہیں، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔کام زندہ رہتا ہے اور زندہ رکھتا بھی ہے۔ اُمید ہے محنت سے نکھار آئے گا اور نکھار سے انکار اقرار میں بدل جائے گا کہ یوسف نام کا ہی نہیں کام بھی یوسف ہے اور ہمارے دلوں میں ادب کی اقبالی محبت سے پیدا ہو جائے گی۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔