سعادت حسن آس کی نعتیہ کتاب”آپؐ سا کون ہے” کے نگار خانہء شعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل قاری کے فہم و ادراک کو ایسی ضیا بخشتے ہیں کہ قاری پڑھتا جاتا ہے اور عشقِ چشمِ امواجِ بقا،سندِ امانت، غنچہء راز وحدت ،جوہرِ فردِ عزت ،ختمِ دور رسالت ،محبوبِ رب العزت ،مالکِ کوثر و جنت، مقطعءجاں فزا ،جانِ صبح مساء، روحِ ارض و سما، شارع لا الہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گرفتار ہو جاتا ہے اور وہ فخرِ کائنات، ارفع الدرجات،اکمل الرکات ،واصلِ ذات اور صاحبِ التاج والمعراج کی سیرت سے آشنائی حاصل کرتا ہے۔ سعادت حسن آس جدتِ خیال کے رنگ دھنک میں پرو کر اس لطیف صورت کو کاغذ کے دل پر ایسے نقش کر دیتے ہیں :۔
رنگ ہے تیری وفا کاسینہء پا تال میں
کھل رہے ہیں گلستاں تیری نگاہ ناز سے
چاہتوں نے سر بکھیرے زندگی کے گیت پر
رقص میں ہے گل جہاں تیری نگاہ ناز سے
الفاظ کی صوتی ترنگ جب بالیدگیء افکار پہ دستک دیتی ہے تو الفاظ کی رم جھم اشعار کی صورت میں ایک ریشمی تبسم لے کر شعر میں ڈھلتی ہے غم گسارِ دل فگاراں مدنی آقاؐ کاعشق اسے نعت کا آہنگ عطا کرتا ہے جو اسلوبیاتی صباحت اور فکری نظافت کاآئینہ دار ہوتا ہے صنائع بدائع اور ندرت اس کلام کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ عاجزی و انکساری در رسولؐ پر جاکر آفتاب اور ماہتاب جیسے الفاظ دامن میں سمیٹ کر واپس پلٹتے ہیں۔ یہ الفاظ جب قارئین کی سماعتوں پہ دستک دیتے ہیں۔ تو ان کے وجدان پر دیدہ زیب آبشاروں اور گلرنگ برساتوں کی طرح فصلِ گلِ مدحت کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں۔ جو کہ قاری کی روح کو تقویت دیتے ہیں۔ اور اسے سیرتِ شمس الضحی، عشقِ نور خدا، بدر الدجی، آفتابِ ہدی، صدر العلی، نورالہدی ،کیف الوری ،صاحبِ جودو سخا سرورِ انبیاء حضرت محمدؐ سے ایک خاص وارفتگی سے آراستہ کرتے ہیں جس سے ناعت منور ہو کر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ جیسی ضیا آفرینی کا باعث بنتا ہے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے مثلِ حضرت حسان رضی اللہ ایک درویش طبع انسان سعادت حسن آس سے نسبت ہے ان کے اشعار میں صنعت تلمیح کا استعمال دیکھیئے کہ کس خوبی و کمال سے کرتے ہیں
بند ہ تو بند ہ کنکر بھی بند مٹھی میں بولے
ڈوبتے سورج کو پھر سے پلٹانے وا لا آیا
براقِ مصطفےؐ کی برق رفتاری بتاوں کیا
کہ جس کی جست سے پیچھے کئی سو کارواں ٹھہرے
اللہ ستارالعیوب نے پوری کائنات انیسِ بے کساں، راحتِ قلب و جسم و جاں ،راحتِ رفتگاں،چارہ گرِ آزردگاں، سکونِ درد منداں ،غمسازِ غریباں ،نگاہِ بے نگاہاں اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خلق کی ہے یہ دھنک کے رنگ، چرند پرند، آبشاریں ،جھرنے، جنگل، بیل بوٹے اور کہکشائیں سب کچھ اور ان کی حقیقت کو سمجھ کر آپ نے کیا خوبصورت شعر خلق کیا ملاحظہ فرمائیے:۔
دو جہانوں میں اجالا آپؐ کی تنویر سے
میرے ہونے کا حوالہ آپؐ کی تنویر سے
حضور انورؐ کے دردِ فرقت میں وصل کی مہک کو ایسے مہکا دیا ہے کہ والہانہ مودت کا اظہار انتہائی برجستگی اور شائستگی سے یوں کرتے ہیں :۔
ان کی یادیں ہی تو ہیں من کے بدلنے کا سبب
یاد ان کو جب کیا ان کا کرم ہونے لگا
ستم کی دھوپ میں آقاؐ کا سائباں سر پہ محسوس کرنا سعادت حسن آس کی آس ہے جس کا اظہار یوں کرتے ہیں:۔
ستم کی دھوپ سے ڈرتا نہیں ہوں
میرے سر پر نبیؐ کا سائباں ہے
نگار ضو تیرے تلووں کا دھوون
کمالِ فن تیرا حسن بیاں ہے
اللہ تعالی نے اپنے نور سے حضورؐ کے نور کو خلق فرما کر پھر آپؐ کے نور سے پوری کائنات کے نور کو خلق فرمایا اسی نور کی خوشبو کو آس اپنے من کی دنیا میں اس طرح دیکھتے ہیں:۔
خدا نے میری مٹی میں ملائی جب تریؐ خوشبو
تو پھر احساس کا گل رنگ کر ڈالا جہاں تمؐ نے
سعادت حسن آس کا حساس دل اللہ کی نعمتوں کا معترف ہے مگر یہ روشنی خوشبو محبتیں سب ایک طرف رکھ کر اپنے آقاؐ سے ملاقات کے اظہارِ شوق کو قلم سے قرطاس پر یوں منتقل کرتے ہیں:۔
روشنی ‘خوشبو’ محبت’ ہمسفر تو ہے مگر
دستِ قدرت سے مجھے خیرالامم بھی چاہیے
آقا پاک کی تنویر سے جہانِ دل میں ضیا اور افکار کی بالیدگی جنم لیتی ہے یہ درد آشنائی اور لذت آشنائی تنویرِ صورتِ صبحِ درخشاں آقا پاکؐ سے الفاظ کو یوں کشید کرتی ہے:۔
جسم کی پاکیزگی ہے آپؐ کی تنویر سے
روح میں بالیدگی ہے آپؐ کی تنویر سے
جب کفر و شرک کی ژالہ باریاں محو رقص تھیں مظلوموں کو جبر سلطانی سے نجات دینے والا کوئی نہ تھا حق گوئی دنیا سے ناپید ہو چکی تھی دروغ گوئی کے رسیا حق گوئی کا خونِ ناحق کر کے سچ کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب کر چکے تھے اس وقت رحمتِ خدا وندی جوش میں آئی اور اس نے حضرت محمدؐ جیسے آفتابِ جہاں تاب کا نزول فرمایا جن کے خوبصورت احساس کو سعادت آس نے یوں اپنے قلم سے آراستہ کیا:۔
پھیلی ہوئی تھی تیرگی بھٹکے ہوئے تھے راہ سے
نور سحر کی رونقیں آپؐ کے دم قدم سے ہیں
سحر خیزی کے اسرار اور لذت سے جو مومن آشنا ہوتا ہے وہ یہ بات ضرور کرتا ہے:۔
چاند تاروں کو ضیاء ان کے توسل سے ملی
حسنِ معصومؐ سے کلیوں نے چٹکنا سیکھا
کوئی بھی سخنور اس وقت تک مدحت نگاری نہیں کر سکتا جب تک اس پر آقا پاکؐ کی مودت کی مہر نہ لگے بہت بڑے سخنور مدحت کی دولت سے محروم دیکھے گئے ہیں لیکن آقا پاکؐ نے آس کی آس کو ہمیشہ پزیرائی بخشی جس کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں:۔
آپؐ نے پیار مجھے سوچ سے بڑھ کر بخشا
کیا بھلی بات لگی آپؐ کو دیوانے میں
اور یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ کہ کوئی بھی بندہ انتہائے کمال، منتہائے جمال، منبعءخوبی و کمال، بے نظیر و بے مثال حضرت محمدؐ سے عشق و محبت کا دعوی کرے لیکن اسے آپؐ کے اہل بیت عظامؑ سے مودت نہ ہو اور ان کے دشمن سے بےزاری اختیار نہ کرے آس بھی اپنی آنکھوں کو غم حسینؑ سے منور کر کے یوں کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:۔
خوش بخت ہوں کہ سینے میں غم ہے حسینؑ کا
خوش بخت ہوں کہ دشمن آل عبا نہیں
زندگی کی تلخیاں انسان کو بکھیر کے رکھ دیتی ہیں وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اس کے اپنے پرائے سب اس کو چھوڑ دیتے ہیں جب حالات انسان کو کچے دھاگے کی طرح توڑ دیں تو اس کو غم گسارِ دل فگاراں حضرت محمدؐ سے ناطہ جوڑ دینا چاہیئے جو ایسا کرتا ہے اسی کو آس یہ نویدِ بقا سناتے ہیں:۔
جو تنکوں کی طرح بکھر جائے آس
اسے پھر سمیٹے سنوارے نبیؐ
شمع بزمِ ہدایت، مخزنِ اسرارِ ربانی اور مرکزِ انوارِ رحمانی آقا پاکؐ کے جمال و کمال دیکھ کر مخمور سی قلبی راحت پا کر فرخندہ بخت اشعار سعادت حسن آس کی فکر و شعور پر اس طرح دستک دیتے ہیں:۔
اک سجیلا سفر اک حسیں راہ گزر آبجو چاندنی
دیر تک نعت پر مجھ سے کرتی رہی گفتگو چاندنی
جھلملا نے لگے مسکرانے لگے آس غنچے کئی
آگئی ہے مرے جب سے پندار میں روبرو چاندنی
خوبصورت اشعار کی کثرت میرا تبصرہ طول کر رہی ہے اپنے الفاظ کو اس دعا کے ساتھ سمیٹتا ہوں کہ اللہ پاک سعادت حسن آس کو صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازے تا کہ وہ آسمان ادب پر متمکن ہو کر ایسے اشعار رقم کرتے رییں:۔
کبھی تو اترو شبستان دل میں جانِ جہاں
سجائے بیٹھا ہوں بارہ دری تمہارےؐ لیے
سید حبدار قائم آف اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔