آکہ پھر لوٹ چلیں ہم اسی منزل کی طرف
جس نے بخشی تھی کبھی عزت و توقیر ہمیں
اب بھی روشن ہیں کہیں دل کے نہاں خانوں میں
اپنی کھوئی ہوئی عظمت کے وہ پارینہ چراغ
جن سے روشن تھے کبھی مسکن ظلمت ہر سو
علم پر جن کے تھا تہذیب و تمدن کا مدار
آکہ پھر لوٹ چلیں دیں کہ پنہ گاہوں میں
مسٔلے ختم کریں ہم من و تو کے سہارے
خود کو ڈھالیں اسی کردار کے سانچے میں اب
جس نے اک بار دیا تھا ہمیں جینے کا سراغ
خشکی و آب پہ بخشی تھی حکومت جس نے
جس نے رکھی تھی ہر اک دل میں محبت کی اساس
آکہ پھر لوٹ چلیں مصحف اعظم کی طرف
رہنمائی کا جو منبع ہے ازل کے دن سے
جس کے ہر لفظ میں مخفی ہے خدا کی حکمت
جس سے دوری ہے سدا باعث رسوائی ہمیں
اپنی توقیر کا پھر سے ذرا ساماں کرلیں
اپنی ہر فکر کو ہم پھر سے مسلماں کر لیں
آکہ پھر لوٹ چلیں ہم اسی منزل کی طرف
آکہ پھر لوٹ چلیں ہم اسی ساحل کی طرف
اکمل نذیر
بہرائچ
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔