انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون سازی
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
سینٹ آف پاکستان سے ایک اچھی خبر آئی ہے کہ سینٹرز نے تارکین وطن کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔ جو کہ خوش آئند فیصلہ ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے ایک ترمیمی بل سینٹ میں پیش کیا گیا ہے جس میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے لیے سخت سے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ بل کے مطابق انسانی اسمگلنگ کرنے والے افراد کو 10 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ، اسمگلنگ سے متعلق دستاویزات تیار کرنے والے کو 10 سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانہ، غیر قانونی طور پر رہائش پذیر شخص کو پناہ دینے والے کو 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ متاثرہ شخص کی موت یا زخمی ہونے اور غیر انسانی سلوک کرنے پر مجرم کو 14 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ اس کے علاوہ، مجرموں کے تیز ٹرائلز کے لیے خصوصی عدالتیں بھی تشکیل دی جائیں گی۔
انسانی اسمگلنگ نہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بھی ہے جو کئی دہائیوں سے پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے غریب ممالک میں موجود ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جب جنگیں اور اقتصادی بحران آئے تو ہزاروں افراد بہتر زندگی کی تلاش میں غیر قانونی طور پر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں یہ مسئلہ مزید سنگین ہوگیا جب مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، اور افریقہ کے ممالک میں بدامنی اور غربت نے لاکھوں افراد کو غیر قانونی ذرائع سے بیرون ملک جانے پر مجبور کیا۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں سے لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طور پر یورپ، مشرق وسطیٰ اور امریکہ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے اسباب میں تعلیم اور آگاہی کی کمی، کرپشن اور قانون کی کمزور عملداری، بین الاقوامی سرحدوں کا غیر محفوظ ہونا اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔پاکستان میں بے روزگاری اور اقتصادی بدحالی لوگوں کو غیر قانونی ذرائع سے بیرون ملک جانے پر مجبور کرتی ہے۔عوام کو غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور قانونی طریقوں کے بارے میں آگاہی نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے وہ انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔بعض اوقات سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت بھی انسانی اسمگلنگ کو فروغ دیتی ہے۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کی کمی ہے۔
حکومت پاکستان نے انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں شہباز شریف کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کی ہے۔ اس فورس کے تحت ایف آئی اے کے بعض اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا ہے جو انسانی اسمگلنگ میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔ خاص طور پر یونان اور اسپین میں پاکستانیوں کی ہلاکتوں کے بعد حکومت نے سخت اقدامات لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ نئے قوانین اور سخت سزائیں انسانی اسمگلنگ کے خاتمے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں بشرطیکہ ان پر مکمل اور شفاف طریقے سے عملدرآمد کیا جائے۔ اگر ان قوانین کو سنجیدگی سے نافذ کیا گیا تو اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کی گرفتاریوں میں تیزی آئے گی اور غیر قانونی ہجرت کے خطرات میں کمی آئے گی۔
مجوزہ قوانین کے نفاذ میں کئی چیلنجزبھی درپیش ہیں۔ پاکستان میں قانونی معاملات کی طوالت اور کمزور عدالتی نظام کی وجہ سے اکثر مجرم بچ نکلتے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود کرپشن کی وجہ سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہ بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مؤثر تعاون ضروری ہے۔ جو لوگ انسانی اسمگلنگ کا شکار بنتے ہیں ان کی بحالی کے لیے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں۔
اگرچہ سینت آف پاکستان کا انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کے لیے قانون سازی کا فیصلہ ایک مثبت قدم ضرور ہے لیکن اس پر کامیابی سے عملدرآمد کرنے کے لیے ایک مؤثر اور شفاف حکمت عملی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اگر حکومت اپنے قوانین کو سختی سے نافذ کرے اور ذمہ داروں کو واقعی سزائیں دی جائیں تو انسانی اسمگلنگ کے خاتمے میں نمایاں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
Title Image by Gerd Altmann from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |