ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کی جائے

ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کی جائے

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں انسانی جانوں کا زیاں مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حادثات نہ صرف قیمتی زندگیاں چھین لیتے ہیں بلکہ خاندانوں کو اجاڑ کر معاشرتی اور اقتصادی نقصانات کا سبب بھی بنتے ہیں۔

پاکستان میں ٹریفک حادثات کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت  ملک میں ٹریفک کا نظام محدود تھا اور حادثات کی تعداد بھی کم تھی۔ تاہم  وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی، گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی نے اس مسئلے کو سنگین بنا دیا۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان میں سڑکوں کی تعمیر اور ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری کی کوششیں کی گئیں  لیکن ان اقدامات کے باوجود حادثات کی شرح میں کمی نہ آ سکی۔

گزشتہ دنوں اٹک، نوشہرہ فیروز اور وزیر آباد میں پیش آنے والے حادثات نے اس سنگین مسئلے کی شدت کو اجاگر کیا۔ بہاولپور سے اسلام آباد جانے والی بس کے حادثے میں 12 افراد جاں بحق اور 15 زخمی ہوئے۔ اس حادثے کی ابتدائی وجوہات میں ٹائر پھٹنا اور ڈرائیور کی غفلت شامل ہیں۔ اسی طرح نوشہرہ فیروز میں دھند کے باعث وین اور ٹرک کے تصادم میں 8 افراد ہلاک ہوئے۔ وزیر آباد میں ٹریکٹر ٹرالی کی ٹکر سے تین موٹر سائیکل سوار جاں بحق ہو گئے۔ یہ حادثات چند عمومی عوامل کی نشاندہی کرتے ہیں جن میں شدید دھند بھی شامل ہے۔موسم سرما میں دھند کے باعث حد نگاہ کم ہو جاتی ہے جو حادثات کی اہم وجہ بنتی ہے۔ حادثات کی ایک اور وجہ گاڑیوں کی دیکھ بھال پر عدم توجہ حادثات کا ایک بڑا سبب ہے۔ رفتار کی حد سے تجاوز حادثات کے امکانات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ نیند، چرس کا نشہ، موبائل فون کا استعمال اور غیر ذمہ دارانہ رویے حادثات کو جنم دیتے ہیں۔

عالمی سطح پر ٹریفک حادثات ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق ہر سال تقریباً 1.3 ملین افراد ٹریفک حادثات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں یہ شرح خاص طور پر تشویشناک ہے، جہاں ہر پانچ منٹ میں ایک شخص ٹریفک حادثے کا شکار ہوتا ہے۔

ٹریفک حادثات کے اثرات صرف متاثرہ افراد تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان کے خاندان، معاشرت اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

حادثات کے نتیجے میں خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔ متاثرہ افراد کے بچوں کی تعلیم اور مستقبل پر منفی اثر پڑتا ہے۔ حادثات کے باعث طبی اخراجات، کام کے ضیاع  اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ حادثات کے شکار افراد اور ان کے اہل خانہ کو نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے۔ گلگت بلتستان اور چترال جانے والے زیادہ تر ڈرائیورز چرس اور افیون کا نشہ کرتے ہیں اس وجہ سے ان پہاڑی علاقوں میں آئے دن  ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں۔

ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے حکومت، عوام اور متعلقہ اداروں کو مشترکہ طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں اور جرمانے عائد کیے جائیں۔عوام میں ٹریفک قوانین کی اہمیت اور ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے۔ سڑکوں کی تعمیر اور مرمت، ٹریفک سگنلز کی تنصیب  اور دھند کے دوران حد نگاہ بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ ڈرائیورز کی مناسب تربیت اور لائسنس کے اجرا کے لیے سخت نظام وضع کیا جائے۔ حادثات کے بعد فوری طبی امداد کے لیے ایمرجنسی سروسز کو مضبوط کیا جائے۔

پاکستان میں ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح ایک لمحہ فکریہ ہے جس کے لیے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانا ہوگا جبکہ عوام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنے ملک کو حادثات سے محفوظ اور زندگیوں کو بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس سنگین مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں تاکہ مستقبل میں حادثات کی شرح کو کم کیا جا سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جان لیوا ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے حکومتی  سطح پر قانون سازی کی جائے  ،  ڈرائیور حضرات کی تربیت کی جائے، سڑکوں کی مرمت کی جائے  اور قیمتی جانوں کو بچایا جائے جوکہ بہ حیثیت شہری ہم سب کی زمہ داری ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

سوشل میڈیا کا مثبت استعمال

جمعرات جنوری 2 , 2025
آج کے دور میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ایک ایسی حقیقت بن چکے ہیں جس سے فرار ممکن نہیں
سوشل میڈیا کا مثبت استعمال

مزید دلچسپ تحریریں