دیدہ وَر ادیب اور مدیر …محمد یوسف وحید
تبصرہ نگار : محمد صادق جاوید ( گڑھی اختیار خان )
’’شعورادراک‘‘ شمارہ نمبر ۶ ،’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ پر خصوصی تبصرہ
اس طرف اندھیرا ہے، اُس طرف اُجالا ہے
یہ مرا حوالہ ہے، وہ ترا حوالہ ہے
کیا ڈرے گا دل شاہدؔ وقت کے مصائب سے
گردشوں کا خوگر ہے، سختیوں کا پالا ہے
(حفیظ شاہدؔ )
بہت کم عرصے میں کامیابی کی منازل طے کرتے اور ہر دلعزیزی کے مائونٹ ایورسٹ کو سَر کرنے والے بہترین علمی، ادبی رسالے ’’ شعوروادراک‘‘ کے منفرد کتابی سلسلے کی چھٹی کڑی یعنی ’’ حفیظ شاہد نمبر‘‘ ہاتھ میں آیا تو قرطاسِ ذہن میں یہ شعر نمودار ہوا ۔
بہار آمد کہ از گلبن ہمی بانگِ ہزار آید
بہر ساعت خروشِ مرغِ زار از مرغزار آید
لیلیٰ ادب کے قیسِ بے ریا ۔ خوگرِ صدق و وَفا ۔ یوسفِ مصرِ ضیا ۔ اُمید کی یکتا شعاع یعنی یارِ دلرُبا ۔ محمد یوسف وحید نے اپنے حُسنِ عمل سے یار لوگوں کے ردِ عمل کی وجہ سے ہم ایسے گوشہ نشینوں کے دلوں میں جس طرح مقا م بنایا اور جس طور ربطِ رواں سے ارتقائی مراحل طے کیے ہیں؟ آخر کو ن سی گیدڑ سنگھی اس کے ہاتھ لگی ؟ کیا کمال ہوا ؟کون سا اللہ دین کا چراغ اس کے ہاتھ لگا ؟ کون سی جادو کی چھڑی اُس کی دسترس میں آگئی ؟ کھل جا سم سم کی توانائی کیونکر اُس کو میسر آگئی اور اس قبیل کے بے شمار استفسار جو ابھی اذہان میں پک رہے ہیں‘ ان کو ہم اپنی قوتِ دروں بینی سے سمجھ بھی رہے ہیں اور پسِ پردہ خلفشار کی حقیقت کا ادراک بھی ہمارے بس میں ہے مگر
دُنیا کب چُپ رہتی ہے
کہنے دے جو کہتی ہے
ہم پہ یقینا کوئی فرض نہیں کہ یہ گتھیاں سُلجھاتے پھریں ، ان سلگتے سوالوں کا جواب دان کریں یا مضمون بین السطور کو اَفشاں کرکے رکھ دیں مگر اتنا تو ہمارا اَخلاقی فریضہ ہے ناں کہ جو ہم جانتے ہیں اُس کو قارئینِ کرام کی نظر کر دیں تاکہ کیوں، کیا اورکیسے ‘کی چلتی پٹی کس کل توقرار پائے ۔ کیوں کہ دُکھی انسانیت کی حتی المقدور خدمت کے فر ضِ عین سے سبکدوش ہوکر قلوبِ بسمل کی چین سامانیاں سمیٹ لیں ۔ اس لیے کہ بے چینی کرب اور ابتلا کے برسوں ہمیں پر مشقِ ستم کی ہے اور ہم ان کو قصور وار بھی نہیں مانتے کیونکہ
بے چینیاں سمیٹ کر سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا میرا دل بنا دیا
بس اسی خیال سے ہم اپنے ممدوحِ محترم محمد یوسف وحید صاحب کی تسلسل کے ساتھ ادبی کامرانیوں سے د ل چھوٹا کرنے والے مہربانوں کو یہ کہہ کر آسانیاں فراہم کیے دیتے ہیں کہ اس بندۂ خدا کے پاس جذبہ و ایثار ہے ، بے لوث محبت کا سکہ ہے ، بے ریا ئی کی طاقت ہے ، محنت میں عظمت کا جادو ہے ، حسد سے بے باکی اُسے دَم دَم توانا رکھتی ہے ۔ نئے اُفق کی تلاشنے کی خوگری اُسے کُھل جا سم سم کا منتر بن کر ملتی ہے اور اسے نت جواںرکھتی ہے ۔ نئے ستاروں سے شناسائی اُسے تازہ دَم رکھتی ہے ۔اور یہ ستاروں پہ کمند ڈالنے کی رسمِ اسلاف کا اَحیا کرتے اپنی دُھن میں مگن چلتا چلا جاتا ہے ۔
کفِ افسوس ملنے والے حیرتِ حیراں کے مصداق اُسے تکتے اپنی ناکامیوں کا بے صوت نوحہ برتنے کے بعد جب جمائی ، ابکائی یا اترائی لیتے ہیں تو یہ ایک اور سنگِ میل عبور کر چکا ہوتا ہے ۔ ایک اور اعزاز اپنے نام کر چکا ہوتا ہے ۔ عمرانیات چونکہ انسانیات اور سماجیات کا مُسلم احاطہ کرکے منفیت اور اثبات کے ساتھ ساتھ پیش آمدہ مشکلات کا حل بھی بتاتی ہے ۔ عمرانیات کے اصلاحی ابواب میں مختلف مقامات پر مختلف الفاظ میں ایک حقیقت مشترکہ نسخے کے طور پر ہمارے سامنے رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی فردِ نو اگر آپ کے وقت سے میل کھاتا ہوا نظر نہ آئے اور اس میں کچھ بھی اَچھوتا پن ہو ۔ وہ اپنے حاضر خاندان سے نرالا ہو تو اس پر اپنی فکرِ نارسا کے ترکش خالی نہ کریں بلکہ نہایت دل جمعی اور قبولِ قلب سے اُس کی سات پشتوں کا جائزہ لیں کہ اُس کے اِس نرالے پن کا بین ثبوت حاصل ہو ۔
محمد یوسف وحید کے الفاظ اُس کے ذہن و دل کا خوب ساتھ دیتے ہیں اور اُس کی آنکھوں کی چمک ، کچھ کرنے کی دُھن اور خود اعتمادی اُس کے اعلیٰ ادبی پسِ منظر کا پتہ دیتی ہے ۔ اور فلسفہ ، قیافہ ، نفسیات یا عمرانیات کے مبتدی جان لیتے ہیں کہ لازمی دَم بدم سیماب صفتی اس کا موروثی ترکہ ہی ہوگا ۔
ہمارے دعوے کی دلیل کے طور پر ایقان اثبات سے دیکھا جا سکتا ہے اور اگر پھر بھی کوئی کیوں، کیا اور کیسے کی رَٹ اور ریہرسل کرنے کا سوچ رہا ہو تو ہم صرف اتنا عرض کرکے آگے بڑھنا چاہیں گے کہ
بو علی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومی پردۂ محمل گرفت
محترم قارئین ! ہم نے ابتدا میں حکیم الامت ، کلیمِ ثانی ، قلندرِ لاہور حضرتِ اقبالؒ سے راز ہائے راہِ سلوک کو طشت از بام کرتا ہوا شہرہ آفاق شعر شعوروادراک کے وقفِ ادب مدیر محمد یوسف وحید اور اُستاد الشعراء حفیظ شاہد کے کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مستعار لیا تھا ۔ان دونوں ادیبوں میں دلِ بیدار، کام کی لگن ، نیت کا خلوص ، پیشے سے عشق اور جذبِ دروں نہ صرف بجا اوربالکل واضح قدرِ مشترک طور پر موجود ہے بلکہ دونوں نے اپنی اپنی جگہ پر جو ثابت کیا ہے، وہ اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ
یہ اپنی مستی ہے جس نے مچائی ہے ہل چل
نشہ شراب میں ہوتا ہے تو ناچتی بوتل
محمد یوسف وحید ‘ شعوروادراک کے مدیر کے طور پر تنقید کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔ وہ زبانِ خلق پر آئی تراش خراش کو محض ایک بازگشت کے طور پر لینے کی بجائے اس میں اپنی اصلاح کا پہلو تلاشنے اور نہایت خندہ پیشانی سے اُسے حرزِ جان بناتے چلے جاتے ہیں ۔ ہم اپنی بات کی تائید کا حوالہ کتاب ’’ قیس فریدی …فن و شخصیت ‘‘ میں شامل ’’ اپنی بات ‘‘ کے تحت کی گئی گفت گو ’’ قیس فریدی …شخص و عکس ‘‘ میں سے ایک اقتباس قارئین کی نظر کرتے ہیں ۔ ہمارے خیال کی تائید خود بخود ہوجائے گی ۔اقتباس پیش ِ خدمت ہے :
’’ لیکن میں ان کی ذات اور بات سے کافی عرصہ پہلے اپنے مہربان و شفیق اُستاد ، مربی و محسن ، عرصہ پچاس سال محکمہ تعلیم میں خدمات سر انجام دینے والی ، عظیم علمی شخصیت اور میرے دادا جان جناب ایم عبد الواحد افغان (ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر) کے بقول تعارف و اَحوال سُن چکا تھا ۔ دادا اَبو سے قیس فریدی کا تعلق بہت گہرا اور پرانا تھا ۔ مختلف سکولوں میں بزمِ ادب کے پلیٹ فارم اور دیگر حوالوں سے اکٹھے علمی ‘ ادبی اور شعور ی سفر جاری رکھا ۔’کشمیر ، فلسطین ، تحریکِ آزادی اور دیگر موضوعات پر مشتمل اُردو ڈرامے لکھے اور بطورِ ہدایت کار یہ ڈرامے اسٹیج بھی کیے‘‘ ۔
ادب کیا ہے ، ا س کا وجود دنیا میں کیوں ہوا ؟
انسان کی زندگی سے ا س کا تعلق کیا ہے ؟
کتنا ہوسکتا ہے اور کیسا ہونا چاہیے ؟
یہ اور اسی قسم کے بے شمار سوالات ہیں جو اس قدر پرانے ہیں ۔جس قدر خود اَدب مگر سوال ، سوال کنندہ اور وجۂ سوال میں ایسا اَٹوٹ ربط ہے کہ جتنا سوچیں موضوع میں اضافت آئی جاتی ہے اور انسان از خو دپیکرِ سوال بنتا چلا جاتا ہے ۔ بقول شاعر:
ہاتھ اُلجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے ریشے کو جُدا کس سے کریں
خوگرِ جستجو احباب بلا تفریقِ حدودو قیود ان سوالات کے جوابات تلاشنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور خارزارِ تحقیق میں ان کی آبلا پائی داد و تحسین کا سامان کرکے متزلزل ادب میں ایقان و اعتماد کے ساتھ قائم القرار کا سماں پیدا کرتی رہتی ہے ۔
راقم الحروف نے جو یائے تحقیق ، خوگرِ جستجو اور قیسِ ادب محمد یوسف وحید کی قریہ قریہ یاترا کے دَوران یہ سماں پیدا ہوتے دیکھا ہے ۔ سورج کی تمازت یا دسمبر کا جاڑا ، وبائی رکاوٹ یا نظر کا تازیانہ‘ کچھ بھی اس کے قدموں کو متزلزل نہ کرسکا ۔ در بدر یاترا میں احباب نے ہزار تساہل دکھایا مگر محمد یوسف وحید نے یہ ثابت کیے بنا دَم نہ لیا ۔
حسن جس رنگ میں جہاں ہوتا ہے
اہلِ دل کے لیے سرمایۂ جاں ہوتا ہے
’’شعوروادراک‘‘سے کچھ سال قبل ’’بزمِ ادراک ‘‘ کی نشستوں میں آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘ کے مصداق ہمارا تعارف ہوا تھا ۔ ’’ بچے من کے سچے ‘‘ کا تحفہ ملا ۔ ویسے بھی کتاب اور بچے ہم دونوں میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ کچھ ہی وقت میں برسوں کے یارانے کا اَحساس ہوا مگر پھر اپنے اپنے مشن کی تکمیل نے ایک عرصے تک اس ملاقات کو محض ایک خوشگوار یاد سے آگے نہ بڑھنے دیا ۔ مگر ’’شعوروادراک‘‘کے ’’ حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر ‘‘ نے اس سلسلے کو کچھ یوں بحال کیا کہ محمد یوسف وحید کی ہم ایسے عدیم الفرصت سے ڈرامائی انداز میں ملاقات اور آمد کی غرض و غایت جان کر بلا ساختہ مرزا سوداؔ کا شعر قرطاسِ ذہن پر نمایاں ہوتا چلا گیا ۔
سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اُڑ گئی تیرے فسانے میں
اس میں خوش آئند پہلو یہ تھا کہ یہ ملاقات غمِ جاں ، غمِ جاناں یا غمِ زمانہ کے حوالے سے نہ تھی بلکہ علمی ، ادبی زبوں حالی کو یک گونا سدھار عطا کرنے کی کاوشوں کے اقرار نامہ کی تکمیل کا بہانہ تھی ۔ اپنے زیست ساز اور منفرد محسن ، اُستادِ محترم ظفر اقبال جتوئی کے فرمودات کے عامل کے طور پر اپنی وقفِ خدمت طبیعت اور مشن سے محبت کے حوالے سے یہ بات سچ ثابت ہوئی اور ہم نے عہد و وفا کی تصوراتی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے ایک بار اتنا ضرور سوچا تھا کہ
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
جس طرح ہر انسان کو فطری طور پر اپنا وطن کشمیر لگتا ہے ۔ اسی طرح ہمیں بھی وطنِ عزیز سے جڑی ہر چیز ، شخص اور مقام سے اُلفت ِپیہم بھی ہے اور رہے گی ۔ حیدر قریشی سے غائبا نہ تعارف بہت پہلے ہوچکا تھا اور انٹرنیٹ پر اُن کے بارے میں اور ادبی کارناموں کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوچکی تھیں۔ ہمارے سوالوں کے جوابات میں محمد یوسف وحید کی گفت گو نے بلا شبہ سونے پہ سہاگے کا کام کیا ۔ ان ہی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہم نے روئی کا گولا لیے ہمصرِ ادب میں جا کر جناب حیدر قریشی ایسی عبقری الزماں شخصیت کے عاشقوں میں اپنا نام لکھوانے کی حامی بھرلی ۔ ایفائے عہد لازم تھا لہٰذا جب کاغذ ، قلم سنبھال کر آمدہ خیال اور کشتِ معلوم کو حرزِ قرطاس کرنے کا فیصلہ کر لیا تو معلوم ہوا کہ توانائیِ جنبشِ قلم ندارد اور ساتھ ہی خیال آیا :
کہاں وہ دن جب اتنی نالہ ہائے دل میں قوت تھی
ارادے ہی سے پہلے تختہ ٔ گیتی لرزتا تھا
لیکن حکم کی تعمیل لازم تھی ۔ سو ہم نے بسم اللہ کر دی ۔ جس پر احباب نے از حد حوصلہ افزائی فرمائی ۔ محمد یوسف وحید کے اخلاص نے ہماری ادنیٰ سی کاوش کو پنجند ڈاٹ کام پر اپ لوڈ کر واد یا ۔ جس پر ہمیں کرم فرمائوں کی طرف سے نہایتمثبت انداز میں پذیرائی دان ہوئی ۔ اسی دَوران مسئلہ ھَل مِن مزید ‘ سامنے آیا جس کا حل معظمہ شمس تبریز ،سعدیہ وحید،سونیا ریاض، صفدر بلوچ اور مجاہد حسین کی صورت میں سامنے آیا ۔ ’’شعوروادراک‘‘کے مدیر کی بھر پور معاونت ، حوصلہ افزائی اور ذاتی دلچسپی نے ان کو میدانِ عمل میں قدم جمانے کے لیے مطلوبہ ماحول عنایت کر دیا ۔ و ہ بھی مکمل فیاضی ، مائلبہ عطا مزاج اور اخلاص و محبت کے ساتھ اور ہمیں ہرگز یہ نہیں کہنا پڑا کہ
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
الگ باندھ کے رکھا جو حال اچھا ہے
کچھ دنوں بعد جہانِ ادب کے اس سیرانی سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور جو بات کی وہ ہمارے لیے نویدِمسرت سے ہرگز کم نہ تھی ، گویاہوئے کہ میں راس الاصفیا ، محقق العصر ، محسنِ قلم و قرطاس ، علامہ سید محمد فاروق القادری کے علمی،ادبی،مذہبی اور روحانی کارناموں پر خراجِ تحسین کے طور پر اپنے ہر دلعزیز رسالے ’’شعوروادراک‘‘میں خصوصی گوشہ شائع کرنا چاہتا ہوں ۔ خوشی کے ساتھ ساتھ بڑی ذمہ داری کا کام تھا ۔ اس گوشے کا اعلان اور اہتمام مگر ہم یہ خوب جانتے تھے کہ جذبِ دروں سے ایک آواز دَم بدم آرہی ہے ۔
تیرے مقام کو انجم شناس کیا جائے
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں
قبلہ پیر صاحب سے جڑی عقیدتوں کا ثبوت ’’شعوروادراک‘‘کا شمارہ نمبر ۵ ، میں خصوصی گوشہ میں شامل تحریریں جن نامور لکھاریوں اور نامور علما اور اسکالرز کے روح پرور اندازِ ابلاغ کا پتہ دیتی ہیں اور ادبی گراف میں اپناجو مقام متعین کر تی ہیں ۔ ان کااندازہ اس گوشہ کے مصنفین کی فہرست سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ فہرست ملاحظہ فرمائیں :
فہرست …خصوصی گوشہ سیّد محمد فاروق القادریؒ ۔ شعوروادراک شمارہ نمبر ۵ (جنوری تا مارچ ۲۰۲۱ء)
نمبر
نام مضمون
نام مصنف
صفحہ
۱
سیّد محمد فاروق القادری کی علمی و ادبی جہتیں
محمد یوسف وحید (مدیر)
284
۲
صُحبت ِ یار آخرِ شُد
سیّد صبغت اللہ سہروردی
286
۳
آبروئے علم و قلم…سید محمد فاروق القادری
پروفیسر عون محمد سعیدی
289
۴
تاریخ ساز شخصیت … سیّد محمد فاروق القادری ؒ
ڈاکٹر عمر حیات الحسینی بوسن
292
۵
علامہ سیّد فاروق القادری…شخصیت و خدمات
سید زاہد نعیمی
301
۶
سرنگوں ہیں پرچم اَدب کے جہاں میں
صادق جاوید
311
۷
گوہرِ باکمال …سیّد محمد فارو ق القادری ؒ
معظمہ شمس تبریز
318
۸
مصنف و مترجم…سید فاروق القادری
اکمل شاہد کنگ
320
۹
زینتِ قرطاس و قلم …سیّد محمد فاروق القادریؒ
علامہ افتخار الحسن رضوی
322
۱۰
صاحب ِ علم شخصیت…سید فاروق القادریؒ
علامہ اسلم طاہر القادری
323
۱۱
محقق و مترجم ، شاعر و ادیب سیّد محمد فاروق القادری ؒ
انٹرویو : ڈاکٹر نذر خلیق
326
۱۲
عالم دین، محقق، شاعر…سید محمد فاروق القادری
پروفیسر رئیس نذیر احمد خان
337
۱۳
محقق العصرسیّد محمد فاروق القادری،حیات و خدمات
مرزا حبیب الرحمن
340
۱۴
تعزیت نامہ
محمد فیضان رضارضوی علیمی
344
۱۵
نامور محقق و مترجم ….سیّد محمد فارو ق القادری
سعدیہ وحید
345
۱۶
آہ !…سید محمد فاروق القادری
علامہ محمد حبیب احمد سعیدی
348
۱۷
سیّد محمد فاروق القادری کی شخصیت
صفدر بلوچ
350
۱۸
سیّد محمد فاروق القادریؒ ….یادیں اور باتیں
سردار محمد اکرم بٹر
352
۱۹
طلوع
سید ارشاد احمد عارف
354
۲۰
سید محمد فاروق القادری …جلیل القدر شخصیت
سراج احمد قریشی
356
۲۱
سیّد محمد فاروق شاہ القادری کی تصنیفات
نذیر احمد بزمی
362
۲۲
رضائے الہٰی سے دارِ بقا کو …
فیاض احمد
365
۲۳
مدبّر ، مفکر اور انسان دوست شخصیت
محمد مزمل خان
366
۲۴
آسمانِ ادب و روحانیت کا شمس و قمر
محمد رمضان
367
۲۵
دبستانِ علم و ادب…سید محمد فاروق القادری
جام ایم ڈی گانگا
369
۲۶
قطعہ ٔ تاریخ وفات ( فارسی )
سید شاکر القادری
369
۲۷
قطعہ ٔ تاریخ ِ وفات
سید عارف محمود مہجورؔ رضوی
370
۲۸
عبقری ٔ زماں شخصیت ۔ علامہ سیّد محمد فاروق القادریؒ
سید عارف محمود مہجورؔ رضوی
372
۲۹
منقبت بحضورمرشدِ کریم سیّد محمد فاروق القادری ؒ
صادق جاوید
373
۳۰
سید محمد فاروق القادریؒ دی یاد وچ
شبیر ابنِ بے رنگ
375
۳۱
عظیم مبلغ …سیّد محمد فاروق القادریؒ
سعدیہ وحید
377
۳۲
منفرد طرزِ تحریر کے مالک …سیّد مغفور القادری
سعدیہ وحید
379
۳۳
سیّد محمد فاروق القادریؒ …صاحبِ بصیرت
ظفر اقبال جتوئی
381
۳۴
مرشدِ من …سیّد محمد فاروق القادریؒ ( روداد عرس)
صادق جاوید
383
مضامین سیّد محمد فاروق القادری ؒ
۱
شیخ محی الدین ابن عربی ؒ
سیّد محمد فاروق القادری ؒ
393
۲
سیدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ
سیّد محمد فاروق القادری ؒ
397
سیّد محمد فاروق القادری ساری زندگی خود نمائی کے خلاف رہے ۔ اسی گوشہ میں راقم الحروف کے قلم سے مشائخِ شاہ آباد شریف ، تعارف اور روحانی خدمات کا تذکرہ بھی ’’شعوروادراک‘‘کا تحفہ ہے ۔ خصوصاً سیّد محمد فاروق القادری کے لختِ جگر ، ملکِ عزیز کے نام ور مذہبی اسکالر ، معروف کالم نویس ، واعظِ حق و بیان اور آپ کے علمی جانشین سیّد صبغت اللہ سہروردی کے تاثرات پر مبنی مضمون جس میں ایقانِ یوسف اور اضطرابِ نوح نہایت عمدہ سلیقے سے یکجا کیا گیاہے کہ الولد سر لایبہ اور اس کے متضا کسی بھی فرمانِ عالی شان پر ایک مکمل مقالے کا سامان بین السطور دیکھا جاسکتا ہے مگر اہلِ نظر کے لیے جن کا اشارہ قلندرِ لاہور ی ، کلیمِ ثانی اور حکیم الا مت حضرتِ اِقبالؒ نے کچھ یوں فرمایا ہے :
نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل
بلاشبہ یہ از حد محنت طلب کام تھا ۔ لیکن ربطِ روحانی کار فرما رہا اور محمد یوسف وحید کاجملہ خلوص بھی اس گوشہ کی اشاعت ، باسلامت پر ہی منتہج ہوا ۔ ہمیں اس کا یقین بھی تھا کہ جتنا ہم نے جانا ہے ۔یہ شعرشاید محمد یوسف وحید کے لیے ہی کہا گیا ہے ۔:
نہیں معلوم منزل کون سی اُس کی نظر میں ہے
مثال دورِ عالم، رات دن اپنے سفر میں ہے
اگلا مرحلہ ’’شعوروادراک‘‘کی کتاب نمبر ۶ ، ’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ کی اشاعت کا تھا اور یہ وہ کام تھا جس میں مختلف بنیادوں پر کٹھنائیاں حائلِ راہ تھیں ۔مگر ادِھر بھی عزمِ صمیم تھا کہ
اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
کچھ ہی وقت گزر ا کہ یہ مشکل اور اَہم مرحلہ بھی طے ہوگیا اوراپنے آپ میں ایک جہانِ بیان سموئے ہوئے ’’شعوروادراک‘‘ کتاب نمبر ۶ ، ’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘کی صورت میں ہمارے ہاتھ میں تھی ۔ محمد یوسف وحید کا عز م پکار پکار کر کہہ رہا تھا :
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں‘ ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
زندگی تحریک اور عمل سے عبارت ہے ۔عمل کسی شخص ، جگہ یا چیز سے فکری ،عمرانی نسبت اور ذاتی ربط کے زیرِ اثر رہتا ہے ۔ دو اَفراد کے درمیان ربط کا حوالہ جتنا مضبوط اور مسلسل ہوگا ، ان کو ایک دوسرے پر رائے دینے کا اور ادبی ، عمرانی ، سماجی تفاعل کا پیامی بننے کا حق حاصل ہوگا ۔
مقبولِ عوام و خواص ’’ شعورو ادراک‘‘ کے مدیر اور نرمل نرمل جذبوں کے منفرد شاعر حفیظ شاہد کے مابین ۔ اُستاد شاگرد کا تعلق بھی موجود تھا اور مل کر کام کرنے کا تجربہ بھی موجود ہے ۔ اور ایک ساتھ رَہ کر ایک مشن کی تکمیل کے مراحل طے کرنے کے ثمرات بھی ہیں ۔ جس میں انسان شعوری اور غیر شعوری ہر دو انداز میں ایک دوسرے کی شخصیت کے ان پہلوئوں سے بھی واقفیت حاصل کر لیتا ہے جو عمومی تعلق داروں کے علم میں تمام طور پر نہیں ہوتے اور سب سے بڑھ کر ساتھ مل کر گزارے ہوئے وقت کا دورانیہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ان دونوں میں کس درجہ کی موافقت موجود ہے ۔
وقت اور ہم زمانہ احباب اس بات سے ہرگز انکار نہیں کر سکتے کہ محمد یوسف وحید کا حفیظ شاہد سے بہت گہرا اور دیرینہ تعلق رہا ہے ۔بلاشبہ امیں سے ایک ادب کا نامور ستارا اور دوسرا ادبی ذوق رکھنے والا نوجوان تھا ۔ لیکن باہمی ربط مسلم ہے اور حوصلہ اَفزا بھی ۔
قدیم وجدید کے حوالے سے ’’ بچے من کے سچے ‘‘ دونوں کے درمیان قدرِ مشترک بھی ہے اور عمرانی تجربات کا سامان بھی ہے ۔ حفیظ شاہد مجلہ ’’ بچے من کے سچے ‘‘ کے ۲۰۰۷ء تا ۲۰۱۴ء تک بطور چیف ایڈیٹر رہے ۔ جس کے وسیلے سے محمد یوسف وحید کو اُن سے سیکھنے کا بھی موقع ملا ہے اور اُن کی ذات میں موجود موجزن ادبی آبشاروں اور کِلکِ قلم سے اُبھرتے نظاروں کا نہایت قریب سے مطالعہ کرنے کا بھی موقع ملا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کی ساحرانہ شخصیت کا پَر تو اُن کے کلام میں جابجا ،عیاں بیاں محسوس کرکے محمد یوسف وحید نے اُن کے غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت کا اُصولی فیصلہ کیا اور اتنا سچے من سے کیا کہ پھر چاہے راہ میں ہزار اُلجھنیں آئیں ، پروا نہ کی اور یہ نعرۂ مستانہ لگاتے ہوئے اس کارِ خیر کی داغ بیل ڈال دی کہ
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
ایک سوا ل کے جواب میں محمد یوسف وحید نے بتا یا کہ حفیظ شاہد ایک معقول عرصے تک الوحید ادبی اکیڈمی خان پور کے سرپرستِ اعلیٰ بھی رہے ہیں ۔ حفیظ شاہد اُردو غزل کے بہت عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت با اخلاق ،ملنسار اور انسان دوست شخص تھے ۔جنتے بھی تھکے ہوئے یا مصروف ہوتے اور کوئی بھی داخلی اُلجھن ہوتی ‘ ہمیشہ دوستوں کو ترجیحی بنیادوں پر وقت دیتے ۔
حفیظ شاہد …فن و شخصیت کے حوالے سے الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ہی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جناب حفیظ شاہد کی وفات کے فوراً بعد اوّلین تعزیتی نشست کا اہتمام کیا ۔ ان کے حوالے سے پہلا باقاعدہ خاص شمار ہ ’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ شائع کیا ۔ اس سے پہلے حفیظ شاہد کی زندگی میں یا بعد از وفات اُن کے حوالے سے آج تک کوئی خاص نمبر شائع نہیں ہوا ۔ماشاء اللہ الوحید ادبی اکیڈمی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حفیظ شاہد کے فن اور زندگی پر ایک خصوصی گوشہ۲۰۱۷ء میں اور ایک موجودہ خاص شمارہ۲۰۲۱ء ترتیب دے چکے ہیں۔
حفیظ شاہد کی شاعری پیغامِ اُمید ہے اور تلخ تجربات کا نچوڑ بھی ۔ زندگی کے کٹھن راستوں سے دامن بچانے اور محفوظ سفر کا ہدایت نامہ ہے ۔
تم اُجالوں کے تمنائی ہو اتنا تو سوچ لو
روشنی میں سائے بھی مدغم ملیں شہر میں
دیکھنا کچھ تازہ زخم لے کر آئو گے
تم سمجھتے ہو تمہیں مرہم ملیں گے شہر میں
یہ رہنمائی ہے ، شعور ہے اور مثبت قوتِ فکر کا صدقہ جاریہ ہے ۔ جس کاسبب محمد یوسف وحید کا خلوص ہی رہے گا ۔ زندگی نہایت مختصر ہے اور منفی روّیوں کے یلغار نے اس میںخود غرضی کا زہر گھول دیا ہے ۔ مفاد پرستی سماج کے حُسنِ لُطفِ احسان اور ہمدردی کو لے ڈوبی ہے ۔ ہر طرف پریشانی ہے ، سُکھ کا سانس خواب دکھائی دیتا ہے ۔ ایسے میںحفیظ شاہد مثبت روّی کا درس اپنی مثال سے اور تجربے سے یوں دیتے ہیںکہ
میں محبت کی روشنی بن کر
وقت کی کہکشاں میں رہتا ہوں
اس کے علاوہ آپ حفیظ شاہد کا سارا کلام اَمن ، محبت ، سبق اور راز ہائے حیات سے بھر پور پائیں گے ۔ پنجابی کلام میں ثقافتی رنگ نمایاں ہے ۔ حفیظ شاہد کا پنجابی کلام اس سے پہلے کسی شعری مجموعے میں شامل نہیں تھا ۔ لہٰذا پنجابی کلام کی اوّلین اشاعت کا سہرا محمد یوسف وحید کے سر سجتا ہے کہ اسے پہلی مرتبہ اسی شمارے میں شامل کیا گیا ہے ۔ یقینا یہ ایک مستحسن اور قابلِ ستائش عمدہ کاوش ہے ۔ اس کاوش سے جن جن علمی، ادبی اور تحقیقی احباب کو جتنا فائدہ اور رہنمائی حاصل ہوگی ، محمد یوسف وحید کے عمل اور نیت کا خلوص واضح تر ہوتا چلا جائے گا ۔
بلاشبہ ’’ حفیظ شاہد ‘‘ دبستانِ ادب ہیں اور ان کے ادبی ، ثقافتی اورسماجی کاموں کے مختلف رنگ ہیں ۔ اُن کی کشش صدیوں تک اپنے مداحوں کے لیے زُلفِ محبوب ثابت ہوتی رہے گی مگر محمد یوسف وحید نے خصوصی نمبر کی صورت میں جو گلدستہ‘ ادب اور ادیبوں کو فراہم کیا ہے ‘ ا س کی حیثیت یہ ہے کہ متاعِ مطلوبہ ’’شعوروادراک‘‘کے مخزن سے مل جائے گا اور انہیں معلومات اور حاصلات کے لیے وقت اور وَسائل خرچ نہ کرنا ہوں گے کہ یہ کٹھن کام یا ادبی خدمت محمد یوسف وحید سر اَنجام دے کر نعرۂ مستانہ لگانے میں کامیاب ہوچکے ہیںکہ
اب جس کو چاہیے‘ وہ لے لے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا
حفیظ شاہد کا مکمل کلام میسر ہے اور اب کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ حفیظ شاہد کا کوئی بھی کلام غیر مطبوعہ رَہ گیا ہے ۔ محمد یوسف وحید کی ادب پرستی نے اسے کتابی صورت دے دی ہے اور محققین اور باذوق احباب کے لیے ایک نعمتِ تحسین کا اہتمام کیا ہے ۔
’’شعوروادراک‘‘کے اس خصوصی نمبر کے ذریعے ہم ایک ایسے فرد سے ملتے ہیں جو زیرک ، عمیق نظر ، سخن شناس ، سخن ور ادیب ، عمدہ تجزیہ نگار ، ماہرِ لسانیات ہے ۔ لاہور سے واپسی ، لاہور کی کم نصیبی ثابت ہو یا نہ ہو خان پور کا اِقبال ضرور ثابت ہوئی ہے ۔ قدرت کے ہر کام میںحکمت ہوتی ہے ۔ اگر یہ الماسی فردیت لاہور کی چکا چوند کی نذر ہوجاتی تو پھر آج ہم کیسے فخر سے کہہ سکتے کہ یاور عظیم ، اظہر عروج ، علی عباس ساجد ، محمد یوسف وحید ایسے نامور اور کامیاب متعدد شاگر د ہمارے اپنے ہیں ۔
فلمی دنیا میں بھی صدائے خان پور کی صورت میں بہ اَدائے دلبر انہ موجود ہے جس کی انگڑائی خان پور کے نامور سپوت کی تخلیقی کامرانیوں کی مرہونِ منت بھی ہے اور ممنونِ احسان بھی ہے ۔
جی ہاں !حفیظ شاہد دبستانِ خان پور کاوہ شجرِ سایہ دار تھے جس نے اپنی نازک چھتری پر سورج کی تمازت سہی مگر ادب کے مسافروں کو احساسِ عافیت دان کیا ۔ خان پور کی فضائوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے آسمانِ خلق کے تابندہ ستاروں کو آکسیجن اور اہلِ ذوق کو متاعِ مطلوبہ سے نوازا ۔
کون جانتا تھا کہ عمرانیات کے فلک پر ۲۶ جون کو نمودار ہونے والا ستارہ آنے والے دنوں میں ایسا تابناک آفتاب اور ایسا سرور آور مہتاب بن کر اُبھرے گا جس کی کرنیں جغرافیائی حدود کو معدوم کرکے اسمِ وطن کو ارضِ عالم پر دُور دُور تک درخشندہ دکھادیں گی ۔ یہ معجزہ نہیں ہے کہ بینک کی ملازمت جس کا اوّ ل و آخر حاصل وصو ل ۴=۲+۲ہوتا ہے ۔ ا س ماحول سے ایسا آہنگ اُٹھایا جس نے نہ صرف دِلوں کے تار چھیڑے بلکہ محبت کے منتر سے تسخیرِ قلوب کا معرکہ بھی سَر کر لیا ۔ ۱۹۶۰ء سے ۲۰۱۴ء کوئی کم عرصہ نہ تھا کہ بندہ میسر ماحول کے رنگ میں رنگ ہی جاتا ہے مگر حفیظ شاہد نے اپنا ہی رنگ قائم بھی رکھا اور غالب بھی رکھا ۔ گویا ایک دفعہ پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دُہرایا اور معمولی سی تحریف کے ساتھ حفیظ نے بھی صدائے حسرت کی ہمنوائی کا حق ادا کر دیا ہے ۔
ہے مشقِ سخن جاری اور چکی کی مصیبت بھی
یک طُرفہ تماشہ ہے ، حسرت کی طبیعت بھی
اشخاص ، اشیاء اور مقامات کے نام اپنے تجویز کنندہ کے ظر ف و مقام کا پتہ دیتے ہیں ۔ حفیظ شاہد نے ۱۹۸۳ء میں اپنے پہلے شعر ی مجموعے’’ سفر روشنی کا ‘‘ رکھ کر جو پیغام دیا ہے اسے ان کی شخصیت کا قطب نما کہا جا سکتا ہے ۔
۲۰۱۰ء میں کلیات:’’ ختمِ سفر سے پہلے‘‘ منظرِ عام پر آیا ۔ یہ عظیم انسان اپنی فنی بلندی کی معراج کے بعد ۲۲ نومبر ۲۰۱۴ء کو اپنے بے شمار چاہنے والوں کو داغِ مفارقت دے گئے ۔ مگر اپنی تخلیق کی مختلف صورتوں میں ہمارے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ حفیظ شاہد کی رِحلت نے ہمیں یہ یقین دلا دیا کہ کس نے سچ ہی کہا تھا :
بچھڑاکچھ اِس اَدا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
حفیظ شاہد کے کلام اور کام قابلِ فخر کارناموں اور یادوں کے پھولوں سے سجے گلدستے کی صورت میں محمد یوسف وحید نے اہلِ ذوق کے لیے سجایا ہے اُس کی مہکار تادیر دادو تحسین وُصول کر تی رہے گی ۔ ’’شعوروادراک‘‘کا خاص شمارہ ’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ ترتیب دینے پر دل کی اَتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہم دیدہ وَر ادیب اور مدیر محمد یوسف وحید کی نذراپنا یہ شعر پیش کرکے اجازت چاہتے ہیں ۔
جگر کا خوں میسر ہو اگر شمع جلانے کو
کرن بس ایک کافی ہے یہ ظلمت کے مٹانے کو
آخر میں ہم حفیظ شاہد نمبر کی فہرست پیش کیے دیتے ہیں تاکہ آپ اس کارِ خیر کے حاصل وصول کا کچھ اندازہ کر سکیں ۔
فہرست …خصوصی شمارہ ’’ حفیظ شاہد نمبر‘‘۔ شعوروادراک شمارہ نمبر۶ (اپریل تا جون ۲۰۲۱ء)
عنوان
مصنف
صفحہ
٭ حمدیہ / نعتیہ کلام
حمد /نعت/مناجات/دُعا
حفیظ شاہد ؔ
5-9
اپنی بات مدیر کے قلم سے ….
محمد یوسف وحید -(مدیر)
13
٭ شخصیت
حفیظ شاہد …شخص و عکس
سعدیہ وحید
17
حفیظ شاہد کا ادبی سفر
محمد یوسف وحید ( مدیر)
20
دبستانِ خان پور کا قیمتی اثاثہ …حفیظ شاہد
میگزین رپورٹ
22
حفیظ شاہد ۔ کچھ یادیں
اظہر ادیب
25
میں اور اُستاذی
یاور عظیم
26
اُردو غزل کا فخر …حفیظ شاہد
نذیر احمد بزمی
33
یادوں کی کہکشاں اور حفیظ شاہد
اظہر ادیب
39
سادہ مزاج دوست …حفیظ شاہد
سعید شباب
41
اُردو غزل کا معتبر حوالہ …حفیظ شاہد
مرزا حبیب
43
اُستاد الشعراء …حفیظ شاہد
شاہد اقبال جتوئی
47
ادب کا سرمایہ …حفیظ شاہد
رانا نصر اللہ ناصر
49
مشرقی روایات کا امین …حفیظ شاہد (تاثرات)
محمد اکرم /اختر رسول چودھری
51
عمدہ تخلیق کار …حفیظ شاہد
اکمل شاہد کنگ
52
حق و صداقت کا پیامبر …حفیظ شاہد
صفدر بلو چ
55
ہمہ جہت شاعر …حفیظ شاہد
نصر ت جہاں
58
٭ فنی و فکری جہات
منفرد اُسلوب کا شاعر …حفیظ شاہد
غلام قادر آزاد
61
حفیظ شاہد کے کلام کا موضوعاتی جائزہ
یاور عظیم
66
حفیظ شاہد کا فکری و فنی سفر
سعدیہ وحید
69
حفیظ شاہد…فن و شخصیت
مظہر عباس
75
حفیظ شاہد اور ’’ سفر روشنی کا ‘‘
ڈاکٹر ارشد ملتانی
78
تازہ دم اور تازہ کار شاعر …حفیظ شاہد
حسن اکبر کما ل
80
حفیظ شاہد کی کتب کا مختصر تعارف
مظہر عباس
81
شاندار روایات کا امین …حفیظ شاہد
ڈاکٹر ندیم احمد شمیم
88
حفیظ شاہدکی وطن سے محبت
مجاہد جتوئی
92
حفیظ شاہد اور فنِ تاریخ گوئی
نذیر احمد بزمی
94
محسنِ ادب و سفیرِ محبت …حفیظ شاہد
معظمہ شمس تبریز
97
٭ خصوصی مطالعہ
زندہ حقیقتوں کا شاعر…حفیظ شاہد
سیّد عامر سہیل
101
توانا لب ولہجے کا شاعر…حفیظ شاہد
پروفیسر ڈاکٹر نواز کاوش
106
روشنی کا سفیر …حفیظ شاہد
حیدر قریشی
112
تاریخ گوئی کی روایت اور قطعاتِ تاریخ کا مطالعہ
مظہر عباس
117
معانی در معانی کا جہاں …حفیظ شاہد
محمد صادق جاوید
127
شاعر میرے شہر کا
زاہدہ نور
132
حفیظ شاہد…اہلِ فن کی نظر میں
سعدیہ وحید
137
٭ خراجِ عقیدت
حفیظ شاہد… انسان دوست شخصیت
حسنین ارشد
186
اُستادِ محترم حفیظ شاہد کے نام /حفیظ شاہد کی یاد میں
اظہر عروج /شہباز نیئر
187-88
٭ مدیر کے نام! (تبصرے/تجزیے/تاثرات)
189-221
حفیظ شاہد …فکر و فن
سعدیہ وحید
222
٭ حفیظ شاہد کا غیر مطبوعہ کلام (مرتب: محمد یوسف وحید ۔ سعدیہ وحید )
حفیظ شاہد کا غیر مطبوعہ کلام …م۔ ی ۔ و
227
’’حاصلِ غزل‘‘غیر مطبوعہ اُردو غزلیات
231
’’حاصلِ غزل‘‘غیر مطبوعہ گیت ‘ملی نغمے
248
’’حاصلِ غزل‘‘غیر مطبوعہ پنجابی غزلیات
250
’’حاصلِ غزل‘‘غیر مطبوعہ فلمی گیت
257
منتخب اُردو غزلیات … سعدیہ وحید
265
٭٭٭
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔