مادری زبان انسان کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان اس زبان میں غور و فکر کرتا ہے۔
اٹک کی ثقافت میں یہ بات رچی بسی ہوئی ہے کہ یہ لوگ اپنی مادری زبان پر فخر کرتے ہیں اور اسی وجہ سے بین الاقوامی زبانیں قومی زبان اور دفتری زبان کے باوجود ضلع اٹک میں بولی جانے والی زبانیں اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔
عموماً پورے ضلع کی زبان پنجابی ہے۔
پشتو مکھڈ دریائے سندھ کے کنارے کالا باغ میں بولی جاتی ہے۔چھچھ کے علاقے میں بھی پشتو بولی جاتی ہے۔ علاقہ مکھڈ کے رہائشی ساغری پٹھان ہیں اور کوہاٹ کی پشتو بولتے ہیں اور کچھ ٹوٹی پھوٹی اردو بھی بولتے ہیں۔مکھڈ علاقے کے بہت سے لوگ ارد گرد کے علاقوں کی پنجابی بھی بولتے ہیں مگر آپس میں پشتو ہی بولتے ہیں۔
کالا چٹا کے جنوب میں بمشکل ہی اردو کا کوئی لفظ بولا جاتا ہے۔ یہاں جو پنجابی بولی جاتی ہے وہ راولپنڈی اور جہلم کے ملحقہ تحصیلوں میں بولے جانے والے پھوٹھوہاری لہجہ سے مختلف ہے اور کوہستان کے مغربی علاقے اور تھل تک پھیلے ہوئے علاقے سے ملتی جلتی ہے۔جس لہجے میں یہاں پنجابی بولی جاتی ہے اس کا تعلق پنجابیوں کے اس گروہ سے ہے جو مغربی پنجابیوں کا ہے جس کے لیئے ریورنڈ مسٹر بامفورڈ نے ایک گرائمر شائع کی تھی اور ریورنڈ ڈاکٹر لیوک نے ایک مغربی پنجابی کو شاہ پور ضلع میں بولی جاتی تھی اس کی گرائمر اور ڈکشنری لکھی۔ 1898 میں مسٹر جے ولسن آئی سی ایس نے ڈکشنری لکھی تھی جب وہ اس ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا۔
ضلع کے اندر پنجابی بولنے والے لوگوں کے لہجے میں بھی فرق ہے۔
سواں کی وادی میں بولی جانے والی سوائیں کہلاتی ہیں۔ پشتون عام پنجابی جانتے ہیں اور پنجابی میں کچھ کثیر الاستعمال الفاظ ہیں جن کے کلمات ضمیر ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
چھچھ میں تقریباً سب پٹھان آباد ہیں اگر چہ ا عوان بھی اچھی خاصی زمین کے مالک ہیں۔ ان کے بعد اہمیت کے لحاظ سے بالترتیب کھٹر اور اعوان آباد ہیں۔ عام طور پر کھٹر کالا چٹا کے ساتھ ساتھ سارے علاقے میں رہائش پزیر ہیں۔
اعوان ضلع کا اہم قبیلہ ہے یہ لوگ جندال اور مکھڈ کے جنوب کے علاوہ پنڈی گھیب کے مغرب میں آباد ہیں۔ اٹک میں یہ لوگ سروالہ اور نلہ میں بھی موجود ہیں۔اس کے علاؤہ راجپوت، جودھرے، کھٹڑ، مغل اور پٹھان موجود ہیں۔
پٹھان دو تحصیلوں میں رہتے ہیں چھاچی پٹھان اور مکھڈ علاقہ کے پٹھان۔
اعوانوں کے ماخذ کے بارے میں ایک یہ بات مشہور ہے کہ یہ پنجاب کے جنگلی میدانوں کے رہائشی ہیں لیکن ان کی اپنی کہانی یہ ہے کہ عربی نسل ہیں جو غزنی کے قطب شاہ کی اولاد ہیں جس نے نے ہرات پر حکومت کی لیکن وہ محمود غزنوی سے اس وقت مل گیا جب اس نے ہندوستان پر حملے کیئے اور اس کی طرف سے انھیں یہ نام "اعوان” یعنی مددگار خطاب کے طور پر ملا۔
اعوانوں کی اپنی اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ قطب شاہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد بھی تھے، کی اولاد سے ہیں جو کہ بی بی فاطمہ زھراؑ کے علاوہ دوسری زوجہ سے ہیں اور اعوان شروع سے ہی مسلمان ہیں۔ ان کا ابتدائی قیام پشاور کے نزدیک تھا لیکن قطب شاہ کے بیٹے مشرق اور جنوب کی طرف تمام علاقے میں پھیل گئے۔
گوہر شاہ یا گو ہرارا سکیسر میں قیام پزیر ہوا، کالان شاہ کالا باغ میں اور چوہان شاہ نے دریائے سندھ کے نزدیکی پہاڑوں کو اپنی آماجگاہ بنایا۔
کھوکھر یا محمد شاہ چناب کے علاقے میں چلا گیا اور توری اور جھاجھ سرحد کے آر پار مقیم ہو گئے جہاں ان کی اولاد اب بھی موجود ہے۔ مسٹر برینڈرتھ اور گنگھم کا نظریہ اعوانوں کے بارے میں مختلف تھا۔ جب کے 300 سال پہلے کا زمانہ ہمیں اکبر کے عہد کے اختتام پر لے جاتا ہے اور آئین اکبری میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اعوان آباد تھے۔
اعوانوں کے بعد پٹھان بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں ان میں سے پنڈی گھیب تحصیل کے جنوب مغربی کونے مکھڈ اور نرڑہ کا پہاڑی علاقہ اور دوسرا تحصیل اٹک میں زیادہ تر چھچھ کے علاقے میں ہیں۔ پنڈی گھیب تحصیل میں سب سے بڑا قبیلہ جوڈھرے ہیں اور پورے ضلع میں حیثیت کے لحاظ سے بھی بڑا قبیلہ تھا، یہ قبیلہ وادی سواں پنڈی گھیب سے جنوب مشرق کی طرف تلہ گنگ کی حدود تک اور شمال میں اس ندی تک جو کہ تحصیل کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور فتح جنگ کی حدود ریلوے لائن تک جاتی ہے میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کا اپنا پس منظر یہ ہے کہ وہ راجپوت نسل سے ہیں اور جوڈھرا کے نام سے پکارے جاتے ہیں جو کہ محمود غزنوی کے دور میں مسلمان ہوئے اور جموں میں رہائش اختیار کی کچھ نسلوں کے بعد انھوں نے وہاں سے ہجرت کی اور وادی سیل میں پنڈی گھیب تک پہنچ گئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
One thought on “زبانیں اور قبائل”
Comments are closed.