محکمہ مال اور حکومت کی ذمہ داری

محکمہ مال اور حکومت کی ذمہ داری

Dubai Naama

سرکاری زمینوں کی نیلامی میں تیزی آ گئی ہے۔ آپ صرف پانچ فیصد ایڈوانس دے کر باقی آسان اقساط پر دو چار ایکڑ ہی نہیں کئی مربع جات سرکاری زمین حاصل کر سکتے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے بہت سے اضلاع میں طاقتور اور اثر و رسوخ رکھنے والے زمیندار یہ کام محکمہ مال سے مل ملا کر آسانی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔ پنجاب کی تقریبا ہر ڈویژن، ضلع اور تحصیل میں سرکاری زمینیں مربع جات ہی نہیں کئ کئ کلومیٹروں تک پھیلی ہوئی ہیں جن کا حساب کتاب اور نگرانی کا کام محکمہ مال اور ریوینیو بورڈ انجام دیتا ہے۔ سکول کالج کے دور میں جب ہمیں والدین اور خاندان کے دیگر بڑے اے سی یا ڈی سی بننے کے لیئے مقابلے کا امتحان دینے کا کہتے تھے تو ہم اتنا ہی جانتے تھے کہ یہ عہدے کوئی بہت بڑی چیز ہیں۔ حالانکہ امن و امان کی بحالی کی زیادہ تر ذمہ داریاں محکمہ پولیس انجام دیتا ہے۔ لیکن پنجاب کے کسی بھی علاقے میں تب بھی اور آج بھی اختیارات اور رعب و دبدبے کے اعتبار سے جتنا ٹہکہ محکمہ مال کے اے سی یا ڈی سی وغیرہ کا ہوتا ہے اتنا محکمہ پولیس کے ایس پی یا اے ایس پی کا نہیں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس وقت بھی اور اب بھی اے سی، ڈی سی کو تو چھوڑیں، بہت سارے پٹواریوں کے بھی ڈیرے ہیں اور وہ کاروں وغیرہ پر گھومتے ہیں۔

چند روز قبل مظفر گڑھ میں سرکاری زمینوں کی نیلامی کا اشتہار نظر سے گزرا تو یہ خیال آیا کہ ویسے تو پورا پاکستان ہی محکمہ مال کا ہے مگر جہاں جہاں سرکاری زمینیں موجود ہیں اور جن اضلاع میں یہ زمینیں جتنی زیادہ ہیں وہاں کا محکمہ مال اتنا ہی زیادہ خوشحال اور طاقتور ہے۔ ان علاقہ جات کے بڑے زمیندار اور سیاست دان جہاں محکمہ پولیس سے بنا کر رکھتے ہیں وہاں وہ محکمہ مال سے اس سے بھی زیادہ بنا کر رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ محکمہ مال کی ملی بھگت سے انہی سرکاری زمینوں کا قبضہ، ٹھیکہ جات اور نیلامی کا دھندہ ہے۔ پنجاب میں جہاں جہاں یہ سرکاری زمینیں موجود ہیں پنجاب اور وفاقی حکومتیں اس کا ریکارڈ منگواتی رہتی ہیں اور حسب ضرورت وہ یہ زمینیں اپنے محبوب ریٹائرڈ جرنیلوں، بیوروکریٹس یا بااثر افراد کو الاٹ کرتی ہیں یا کاشت کاری کے لیئے عام لوگوں کو ٹینڈر کے ذریعے کچھ سالوں یا ننانوے سالہ سکیم کے ذریعے دے دیتی ہیں۔ کچھ علاقوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ شہروں اور دیہاتوں کے گرد و نواح میں سرکاری زمینوں کو کچھ دھڑلے والے لوگ ٹینڈر کے ذریعے اپنے نام لگوا کر اس کی پلاٹنگ کرتے ہیں اور آگے مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔

اس دھندے میں ملوث کچھ افراد تو اتنے منہ زور ہوتے ہیں کہ وہ محکمہ مال اور ریونیو بورڈ کے سرکاری افسران سے مل کر بغیر نیلامی یا ٹینڈر کے یہ سرکاری زمینیں سالہا سال تک کاشت کرتے ہیں یا پھر کوڑیوں کے مول سیدھا اپنے نام کروا لیتے ہیں۔

محکمہ مال پنجاب کے اس اشتہار کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پچپن میں ہمارے بڑے ہمیں ڈی سی بننے کا خواب کیوں دکھاتے تھے۔ مسلم لیگ نون کے کارکنوں کو “پٹواری” کہنے کے پیچھے بھی شائد کچھ ایسی ہی سائنس کارفرما ہے کہ سرکاری زمینوں کو ہتھیانے میں جو کردار پٹواری حضرات ادا کرتے ہیں وہ کوئی اور ادا نہیں کر سکتا ہے۔ دراصل پٹواریوں کی محکمہ مال میں وہی اہمیت ہوتی ہے جو محکمہ پولیس میں تھانیدار کی ہے۔ ایک پٹواری کے پاس کھیوٹ، کنال اور مربع جات کا پورا ریکارڈ ہوتا ہے اور وہی اس کی ملکیت یا کاشت وغیرہ کا اندراج کرتا ہے۔ محکمہ مال کو اسی نسبت سے “محکمہ پٹوار” بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ محکمہ پولیس کے تھانیدار کا بھی یہی کمال ہے کہ جس کیس کی رپورٹ تھانیدار محکمہ انصاف کو بھیجتا ہے اور جس کی بنیاد پر مجسٹریٹ اور جج صاحبان فیصلہ دیتے ہیں، وہ جس کے حق میں ہو فیصلہ جات بھی اسی کے حق میں آتے ہیں۔

اگر محکمہ مال ٹھیک ہو جائے یا یہ بدعنوانی سے پاک ہو جائے تو نہ صرف پاکستان کا بیرونی قرضہ اکیلا محکمہ مال اتار سکتا ہے بلکہ اس سے پاکستان میں کسان سے لے کر عام مزدور تک کی زندگی میں خوشحالی بھی آ سکتی ہے۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا تھا جس سے مختلف آپریشنز کے ذریعے پنجاب بھر سے اربوں روپے مالیت کی 53516 ایکڑ، 79721 کنال سرکاری و نجی اراضی واگزار کروائی گئی تھی جس میں صرف لاہور میں 435 ایکڑ اور 498 کنال اراضی واگزار کروائی گئی تھی۔ اسی طرح شیخوپورہ، گوجرانوالہ، راولپنڈی، سرگودھا، فیصل آباد، ملتان، ڈی جی خان، ساہیوال اور بہاولپور وغیرہ میں بھی بہت سے مقدمات درج کیئے گئے اور سرکاری زمینیں واگزار کروائی گئیں تھیں۔

پنجاب اور دیگر صوبوں میں جاگیرداری نظام بھی محکمہ مال کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ جہاں کسی کا زور چلتا ہے وہ وہیں سرکاری زمینوں پر قابض ہے۔ بھٹو صاحب نے زرعی اصلاحات کے نام سے کسانوں میں زمینیں تقسیم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ سنہ 2010ء میں پنجاب کے سابق وزیر اعلی شہباز شریف جو اس وقت وزیراعظم ہیں، انہوں نے صوبہ پنجاب کے زرعی گریجویٹس کو زرعی اراضی فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر دونوں بار یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ یاد رہے کہ اس مد میں سنہ 2010ء میں سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے ضلع راجن پور کے ایک زرعی گریجویٹ شہزاد نسیم کو 197 کنال زمین الاٹ کی تھی۔ سنہ 2019ء تک سرکاری کاغذات میں زمین ان کے نام تھی۔ اطلاعات کے مطابق وہ سرکار کے خزانے میں سالانہ پانچ سو روپے فی ایکڑ کے حساب سے لیز کی رقم بھی جمع کرواتے رہے مگر ریاست کی طرف سے الاٹ کی گئی 197 کنال زمین پر کوئی اور قابض رہا۔ ہمارے پیرمحل کے شفقت اللہ مشتاق بھی راجن پور میں ڈپٹی کمشنر رہے ہیں۔ میری معلومات کی حد تک وہاں سات زرعی گریجویٹس کو زمینیں الاٹ کی گئی تھیں مگر پرانے قابضین عدالت چلے گئے تھے۔ قانون کے مطابق جب تک عدالت اس معاملے میں فیصلہ نہ کر دے انتظامیہ پرانے قابضین سے قبضہ واپس نہیں لے سکتی ہے۔

ایک قول ہے کہ “جس کی لاٹھی اس کی بھینس”، محکمہ مال شاد و آباد رہے کہ یہ ایک بار جسے ٹینڈر یا زمین کا قبضہ دے دے تو پھر یہ قبضہ چھڑانا آسان نہیں ہوتا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پنجاب کے بہت سے دیگر اضلاع میں بھی زرعی گریجویٹس کو زمینیں الاٹ کی گئیں جن پر ایک مخصوص سیاسی جماعت کے سابق و حاضر ممبران اسمبلی کا تا ہنوز قبضہ جاری ہے۔

پنجاب میں انگریز حکمرانوں نے محکمہ مال کا موجودہ نظام سنہ 1848ء میں متعارف کروایا تھا۔ محکمہ مال کے ریکارڈ کی ابتدائی تیاری کے وقت ہر گاوں کو “ریونیو اسٹیٹ” قرار دیا گیا تھا جو ہر گاؤں کے نمبردار کی صورت میں آج بھی جاری ہے۔ زمینوں کے اندراج کی تفصیل میں اس گاوں کے نام کی وجہ، اس کے پہلے آباد کرنے والے لوگوں کے نام، قومیت، عادات و خصائل، ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل، رسم و رواج، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گاوں کے معاملات طے کرنے جیسے قانون کا تذکرہ، زمینداروں، زراعت پیشہ، غیر زراعت پیشہ دست کاروں، پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض، انہیں فصلوں کی کاشت کے وقت شرح ادائیگی اجناس اور پھر نمبردار، چوکیدار کے فرائض و ذمہ داریاں، حتیٰ کہ گاوں کے جملہ معاملات کے لئے دیہی دستور کے طور پر دستاویز واجب العرض تحریر کی جاتی تھیں جو آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ لھذا پنجاب ہی نہیں محکمہ مال کی پاکستان بھر میں وہ اہمیت ہے کہ جس کے اس محکمہ میں ہاتھ پڑتے ہیں ان کی چاندی ہو جاتی ہے۔ اگر یہ محکمہ صحیح ہو جائے اور اس سے اقربا پروری اور کرپشن ختم ہو جائے تو کسان ہی نہیں عام پاکستانیوں کی بھی چاندی ہو سکتی ہے۔

محکمہ مال کا ایک اور تلخ پہلو پنجاب کی زرعی زمینوں کا ہاؤسنگ سوسائیٹیز کی نذر ہونا ہے۔ وسطی پنجاب، لاہور اور کراچی کے گردونواح جہاں کبھی زرخیز اور سرسبز لہلہاتے کھیت ہوا کرتے تھے وہاں اب دور دور تک مکانات اور بحریہ ٹاؤن جیسی ہاؤسنگ سوسائیٹیز دکھائی دیتی ہیں جن کے ذریعے ملک ریاض جیسے پراپرٹی ٹائیکون پیدا ہوئے ہیں جس میں گوجرانوالہ شہر کے قریب واقع گاوں تلونڈی موسی خان بھی شامل ہے جہاں 20 سال پہلے کم و بیش 3500 ایکڑ رقبے پر گندم اور چاول کی کاشت کی جاتی تھی مگر اب یہ زرعی زمین ہاؤسنگ سوسائیٹیوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔

بنیادی طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ایوب خان دور تک پاکستان صنعتی ملک بھی تھا۔ لیکن اب ایک طرف آبادی بڑھنے کی وجہ سے مکانات کی طلب میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف ملک میں اجناس کی پیداوار بڑھنے کی بجائے ہر سال کم ہو رہی ہے۔ نتیجتا خوراک میں خود کفیل ایک زرعی ملک اب گندم سمیت دیگر اجناس دوسرے ممالک سے خریدنے پر مجبور ہے۔

زرعی ماہرین کے مطابق سالانہ بنیادوں پر زرعی پیداوار اور زیر کاشت رقبے میں کمی سے مستقبل میں غذائی عدم تحفظ کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں جسے ختم کرنے کے لیئے حکومت اور محکمہ مال کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ خصوصی طور پر محکمہ مال کا کام صرف زمینوں کی الاٹمنٹ یا نیلامی ہی نہیں ہے بلکہ آباد اور غیر آباد زمینوں پر کاشت کاری اور ان سے اچھی فصلیں حاصل کرنے کے لیئے زمینداروں سے تعاون اور انہیں سہولیات فراہم کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔

Title Image by Adnan Khalid from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

داؤد تابش کی عطا کا رخ

جمعہ اکتوبر 11 , 2024
داود تابش کی اشعار میں اسلوبیاتی صباحت اپنے تقدس کے ساتھ دیدنی ہے فکری عفت اشعار کے اندر واضح نظر آتی ہے جب اسم محمد ﷺ کا ذکر کیا جائے
داؤد تابش کی عطا کا رخ

مزید دلچسپ تحریریں