صنعتی کارکنان کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں یہ لوگ اپنی جوانیاں ملک و قوم کے لیے قربان کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں ان کی شب روز محنت اور خون پسینہ ایک کر نے سے ہی کارخانوں و فیکٹریوں کا نظام چلتا ھے صنعتی پیداوار حاصل ہوتی ھے جو نہ صرف اندرون ملک کی ضروریات پوری کرتی ھے بلکہ بیرون ملک برآمدات سے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ھے یہ صنعتی کارکنان ملک کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر بدقسمتی سے مملکت پاکستان میں ان کارکنان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک رواء رکھا جا رہا ھے اپنی سروسز کی تکمیل کے بعد ان افراد کو نظرانداز کیا جاتا ھے ان کو علاج معالجہ و دیگر ضروریات کی فراہمی کا خیال نہیں رکھا جاتا انتہائی قلیل پنشن بڑھاپا الاوئنس کے نام پر دی جاتی ھے مہنگائی کے اس دور میں جس سے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی دشوار ھے اور ملک و قوم کے یہ محسن انتہائی کسمپرسی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں ان ہی مسائل کے حل اور داد رسی کیلئے ای او بی آئی کے ضعیف العمر پینشنرز نے وزیراعظم کے نام ایک خط بھی لکھا ھے جس میں توجہ دلائی گئی ھے کہ ای او بی آئی کی موجودہ پنشن ساڑھے آٹھ ہزار روپے ھے جس میں اضافہ کر کے اسے کم سے کم تنخواہ کے مساوی کیا جائے کیونکہ موجودہ پنشن میں گزر بسر ممکن نہیں ہے ای او بی آئی کے ضعیف العمر پینشنرز نے اپنے خط میں تحریر کیا ہے کہ صنعتی ورکز کو 1976 سے پہلے بڑھاپے کی پینشن یا کسی قسم کی کوئی اور سہولت میسر نہیں تھی۔ 1976 میں ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ ایکٹ نافذ العمل ہوا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ صنعتی کارکنان کو ریٹائر منٹ کے بعد ضعیف العمری میں سہولیات/مراعات مہیا کی جائیں۔۔ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ اس ادارہ کا عملہ ملک کے تمام صنعتی اداروںسے ایک مقرر شدہ کنٹریبیوشن وصول کرے اور ایسے تمام اداروں کے بیمہ شدہ کارکنان کی ماہانہ اجرت سے بذریعہ آجر کٹوتی کرکے ای او بی آئی میں جمع کرائے تاکہ اس رقم سے صنعتی کارکنان کو ضعیف العمری میں سہولت دی جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صنعتی کارکنان کے جمع شدہ فنڈز سے ای او بی آئی کے پورے ملک کے ملازمین درجہ چہارم سے لے کر گریڈ 22 کے آفیسر تک سرکاری ملازمین کے مساوی تنخواہیں و دیگر مراعات بشمول پنشن لے رہے ہیں اور جن صنعتی کارکنان کی ماہانہ اجرت اور ان کے آجر کے جمع شدہ کنٹری بیوشن سے یہ فنڈ قائم ہوا ہے انھیں صرف اور صرف ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے ۔ ای او بی آئی کے ضعیف العمر پینشنرز نے وزیراعظم سے اپیل کی کہ ہم عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکے ہیں جنہیں مختلف بیماریاں گھیر لیتی ہیں جن کا علاج بھی کافی مہنگا ہے ۔گھر کے روزمرہ کے اخراجات بھی 8500 روپے میں پورے نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ضعیف العمر پینشنرز کی ماہانہ پنشن صنعتی کارکن کی کم سے کم تنخواہ ماہانہ اجرت کے برابر کی جائے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف جو اپنے آپ کو خادم پاکستان کا لقب دیتے ہیں اور غریب و بے کس عوام کے لیے درد دل کے دعوے دار ھونے کے ساتھ ان کے عام آدمی کے لئیے آسانیاں فراہم کرنے دعوے دار ہیں کے لیئے ان ای۔ائی بی پنشنرز کا نوحہ قابل توجہ ھے امید ھے کہ وہ اس خط پر دردمندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ان ضعیف العمر پنشنرز کے مسائل پر توجہ دیں گے اور ان کی پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کے احکامات جاری کریں گے تاکہ یہ سفید پوش طبقہ باعزت طور پر اپنی زندگیاں گزار سکے
صحافی، کالم نگار، مصنف
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔