ہمارا آؤٹ ڈور کچن( چُلھ)صحن میں چھ فٹ اونچی دیوار کے سنٹر میں چلھ اور سائڈوں پر دو طاقچوں پر مشتمل تھا . اصلی کچن صرف بارش میں استعمال ہوتا تھا ۔ چولہے کی راکھ ہمارا ڈش واشنگ پاؤڈر تھا یہ برتن چمکا دیتا تھا۔ کٹوی اور دیگچوّں کی کالی بیس base پر مٹی کا لیپ کیا جاتا۔پھر ان کو خشک کرنے کے لیے شاخ دار سٹینڈ پر الٹا رکھ دیا جاتا ۔ کبھی کبھار رات کی روٹی بجائے سالن کے کچی سے کھائی جاتی ۔ دودھ کا 25 پرسنٹ محلول solution بنا کر اس میں نمک ڈال دیا جاتا،یہ تھا کچی کا فارمولا۔ ایک نوالہ روٹی اور ایک گھونٹ کچی۔ یہ تھا ورکنگ ڈنر۔
لنچ باکس نام کی مشین ان دنوں ایجاد نہیں ہوئی تھی ۔ پرائمری سکول کے بچے آدھی چھٹی کے وقت گھر آکر لنچ کر لیتے ۔نیله ہائی اسکول کے بچے رومال میں پراٹھا باندھ کر لے جاتے ۔ اباجی کوہاٹ/ نوشہرہ سے چھٹی آتے تو آدھی چھٹی سے پہلے اسکول آجاتے ۔ ماسٹر صاحب سے عرض کرتے، عبدالسلام آں چھٹی دیو ای مینڈے نال روٹی کھیسی۔ ایسے بابرکت موقع پر چوری Choori کا اہتمام ہوتا۔ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ان میں گھی کوٹ کوٹ کر بھرا جاتا اور شکر ڈالی جاتی۔۔ پرنس آف ویلز اس کے ساتھ ساتھ پورا انصاف فرماتے۔
1970 میں امی جان نے مجھے اچار ڈالنے کے لیے کچے آم خریدنے فتح جنگ بھیجا۔ جامع مسجد کے پاس بازار میں کھلی جگہ آموں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ۔ گھر میں امی جان ٹوکے سے آم کاٹے ان کو مرتبان میں ڈالا۔ سرسوں کا تیل اور مصالحہ ڈالا۔کچھ دن تک اچار کو اٹھنے/ تیار ہونے کے لئے رکھ دیا۔ روز مرتبان کو زور زور سے ہلا کرتمام اجزاء کو مکس کرتی تھیں ۔
ہم لوگ اٹک شہر سے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے ملہووالہ ہلز جاتے تھے ۔یہ سلسلہ 1967 سے 1980 تک جاری رہا ۔ چھٹیوں کا ایک خاص ایونٹ سیویاں وٹنا ہوتا تھا۔منجی کی پٹی پر مشین فٹ کی جاتی ۔ گندھا ہوا آٹا ڈال کر مشین چلائی جاتی۔ چھاننی سے سیویاں نکلتیں ۔ دھوپ میں الٹی چارپائیاں بچھی ہوتیں۔ان پر صاف کھیس بچھے ہوتے ۔پاووں کے ساتھ رسیاں بندھی ہوتیں۔ سیویاں دونوں ہاتھوں سے احتیاط سے رسیوں پر ڈالتے۔ دس سے دو بجے تک سارا کام نمٹ جاتا۔ خشک سیویاں اتارتے ہوئے احتیاط کرتے کہ ٹوٹنے نہ پائیں۔ پھر ان کو جستی پیٹیوں میں سٹور کر لیتے ۔ مشین کے بغیر ہاتھوں سے وٹی ہوئی موٹی سیویوں کو جولے کہتے تھے ، جیم پر زبر۔
مہینے میں ایک آدھ دفعہ جب والدہ فارغ ہوتیں تو سہ پہر کو دودھ والی سبز کشمیری چائے بناتیں۔ نیچرل گلابی رنگ اور سبز الائچی کی خوشبو کا ظالم کمبینیشن combination ہوتا تھا۔ دل کرتا تھا کہ بجائے کشمیری چائے پینے کے اس کو دیکھتے اور سونگھتے رہیں ۔ لالہ موسیٰ میں Pakpore نامی سیرامک فیکٹری تھی جس میں چینی کے برتن بنتے تھے ۔اس کی چینکوں اور پرچ پیالیوں کاعام رواج تھا ۔ان میں کشمیری چائے کا مزہ دوبالا ہو جاتا تھا ۔
ہوسٹل میں رہنے والے طلبا اور ملازمت پیشہ چھڑے حضرات گھر سے واپسی پر والدہ کی بنی ہوئی پنجیری، پاپڑی ،مٹھی روٹی وغیرہ لے کر جاتے ہیں ۔اس پر اصولی طور پر سب روم میٹس کا حصہ بنتا ہے ۔ بعض لوگ اس اصول کی پابندی نہیں کرتے اس اور پھر قانون اپنا رستہ لیتا ہے ۔ 1952 میں ابا جی ، چاچا الطاف ، چاچا اسحاق اور کچھ دوسرے حضرات کا چھڑا گروپ ڈھوک کھبہ میں اکٹھے رہتے تھے۔ان میں سے ایک صاحب گھر سے پنجیری لے کر گئے ۔ کسی کو خبر نہ کی رات لالٹین بجھنے کے بعد پولا پولا صندوق کا تالہ کھول کر پنجیری کا پھکا مارتے ۔ سارے گروپ کو اس سماج دشمن حرکت کا افسوس تھا۔ بس قانون حرکت میں آگیا ان صاحب کی غیر موجودگی میں صندوق کا تالہ کھولا گیا ۔سب نے مل کر پنجیری کھائی ۔ ونڈ کھائیے تے کھنڈ کھائیے۔ اس کے بعد پنجیری والے ڈبے میں ریت بھر کر صندوق کا تالہ لگا دیا۔رات کو لالٹین بجھنے کے بعد ملزم نے حسب معمول پھکا مارا ریت نے منہ میں پہنچ کر اپنا اثر دکھایا برا بھلا کہنے لگے ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔