کوٹلی، کپتان کے سانپ اور پیر پنجال
1984 میں راقم کی پوسٹنگ سرائے عالمگیر سے کوٹلی ہو گئی۔ سرائے عالمگیر سے دینہ، میرپور کے رستے کوٹلی گیا۔یہ سڑک ۔منگلا جھیل کے ساتھ ساتھ جاتی ہے بہت خوبصورت منظر تھا۔ زکام کی وجہ سے میں نے فینرگن phenrgan گولی لی ہوئی تھی اس کی غنودگی میں سفر کٹا۔
آٹھ ماہ آفیسر میس میں رہا ۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے فوجی آبزرور observer افسروں کا میس تھا . جب بھی کنٹرول لائن پر گولی چلتی یا گولہ باری ہوتی یہ لوگ موقعہ پر پہنچ کر ایف آئی آر نوٹ فرما لیتے تھے اور معاملہ ختم۔ چھ ماہ ان کی ڈیوٹی پاکستانی سائڈ پر ہوتی ۔پھر واہگہ بارڈر کے ذریعے سرحد کی دوسری ،سائڈ پر چلے جاتے۔ ایک دفعہ ان میں بلجیئم کے افسران تھے ۔کبھی کبھار سرحدی جھڑپوں میں زخمی فوجیوں کو دیکھنے ہمارے اسپتال آتے تھے اور ھماری ٹی بریک میں شامل ہو جاتے تھے۔
سردیوں میں ہم لوگ د ھوپ سینکتے ہیں۔ یہ یورپی آبزرور کاچھے پہن کر د ھوپ میں لیٹ جاتے۔ پتہ چلا کہ بھائی صاحب سن باتھ غسل آفتابی فرما رہے ہیں۔ پانی اور صابن کے بغیر غسل کرنا واقعی سائنس کا کمال ہے۔
راقم کی شادی دسمبر 1984 میں ہوئی۔ 1985 میں کوٹلی سے فیملی لائف شروع ہوئی ۔ بیچلر آفیسرز کوارٹرز BOQsسے میریڈ آفیسرز کوارٹرز MOQs میں شفٹ ہو گیا۔ چھ کچے گھر ایک / دو کمروں والے اسپتال کے ساتھ بنے ہوئے تھے ۔
ہمارے گھر کے صحن backyard سے پونچھ دریا کا زبردست نظارہ تھا۔رات کی خاموشی میں دریا کا شور سنائی دیتا تھا۔ سیلف ہیلپ سے ایک کچا کمرہ اور کچن تھا۔اس غریبانہ مکان کو کپتان صاحب کا بنگلہ کہتے تھے۔ بجلی موجود تھی اور حسب ضرورت اسپتال کا جنریٹر آن ہو جاتا تھا ۔پانی بیٹ مین بالٹی میں بھر لاتا۔ ککنگ کےلئے بتیوں والا مٹی کے تیل کا چولھا تھا۔
فوجی بولی میں مٹی کے تیل کو کے۔ٹو(K-2 .oil) کہتے تھے ۔Kerosene .2
فوجی فرنیچر کی شکل میں لوہے کی چارپائیاں ( ٹیوبولر) لوہے کا فولڈنگ ٹیبل اور کرسی مل گئی ۔ حیدرآبادی بیٹ مین گھر کے کام کرنے کے علاوہ ہماری اردو کو بھی بہتر بناتا تھا۔ ایک دن دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو اردوئے معلی میں ارشاد فرمایا ۔جونہی اجالا ہوا میں آ گیا لیکن بنگلے کے کواڑ بند تھے۔
اس وقت کوٹلی میں ہمارے گرائیں زمرد حیات کدھرے حیدر سخی جودڑا اور مسیرا بنیامین جودڑا بھی کوٹلی میں تھے۔ کدھرے کا بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ چاچا حیات کچھ عرصہ پوٹھوار میں رہا تو وہاں کی زبان کا رنگ چڑھ گیا ان پوٹھواری الفاظ میں کدھرے بھی تھا جس کو ہم ۔۔کدی ( کبھی) کہتے ہیں ۔اس سے حیات چاچے کا نام حیات کدھرے پڑ گیا۔
پہاڑی علاقے میں راشن پہنچانے کے لئے خچر استعمال ہوتے ہیں اس کام کے لئے اینیمل ٹرانسپورٹ یونٹ ہوتی ہے۔ہر خچر کے ساتھ اس کا ڈرائیور ہوتا ہے جو اس کو چلاتا ہے اس کو اے۔ٹی ۔ڈرائیور کہتے ہیں۔ گاڑی کا ڈرائیور فوجی زبان میں ایم ٹی ڈرائیور کہلاتا ہے ۔میکینیکل ٹرانسپورٹ ڈرائیور عام توپوں کو دوسری گاڑی کھینچتی ہے۔ کچھ توپیں ٹینک کی طرح ہوتی ہیں ان کو علیحدہ گاڑی کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس توپ کے ڈرائیور کا نام سن کر تراہ نکل جاتا ہے ڈی ایس پی (Driver Self Propelled Gun)۔
1982 میں راقم کو کمیشن ملا تو کھوڑ چوکی سے سپاہی صفائی (police verification)کے کاغذات لے کر ملہوالہ گیا ۔ اباجی سے کسی نے کسی نے پوچھاکہ پولیس عبدالسلام کا پتہ کرنے آئی تھی۔۔۔کی گل اے؟
اباجی نے فرمایا میرا بیٹا فوج میں اے ٹی ڈرائیور نہیں بلکہ کپتان بھرتی ہوا ہے اس لئے حکومت اس کے بارےمیں تسلی کر رہی ہے جیسے ہم لوگ ہونے والے داماد کے بارے میں معلومات حاصل کر کے تسلی کرتے ہیں۔
واما بنعمت ربک فحدث
پہاڑی علاقے میں ایک خاص توپ استعمال کرتے ہیں اس توپ کو Dismantle کر کے کھول کر خچروں پر لاد کر پہاڑ پر لے جاتے ہیں اور پھر وہاں جوڑ لیتے ہیں ۔ ان توپوں کو لے جانے والے خچر راشن ڈھونے والے خچروں سے بڑے ہوتے ہیں۔ ان کو توپ والا خچر کہتے ہیں ۔Mule Artillery..خچروں کی یونٹ کے ساتھ فوجی ویٹرنری ڈاکٹر ہوتے ہیں۔
کوٹلی میں ڈریسنگ سٹیشن ( فوجی اسپتال ) پر انحصار کرنے والی کچھ یونٹوں کے پاس اپنے ڈاکٹر نہیں تھے کوٹلی سے ہم لوگوں کو وہاں باری باری بھیجا جاتا تھا۔ مینڈھر 1947 میں مجاہدین کے پاس تھا بعد میں بھارت نے اس پر قبضہ کر لیا۔ ھماری ڈیوٹی میںڈھر نکیال بارڈر پر لگتی تھی ۔ ہم کبھی کبھار کمپنی ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کرتے تھے ۔ اس علاقے کے کچھ دیہات کے نام یہ تھے۔ کریلا مجھان، ترکنڈی ،ڈبسی،جندروٹ وغیرہ۔
پہاڑوں کے نام کے ساتھ پیر peer کا لفظ عام تھا اس کی بیک گراؤنڈ کا علم نہیں پیر پنجال،پیر بڈھیسر،حاجی پیر ،تولی پیر ،پیر نسوڑا ۔
1984 میں اندرا گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔ اس وقت میں بارڈر کے بالکل قریب ایک پوسٹ پر تھا۔ ہندوستانی پوسٹ کا سرنگوں جھنڈا ترنگا آسانی سے دوربین کے ذریعے دیکھا جا سکتا تھا۔
یہیں میں نے پہلی بار شام کو شفق کا مشاہدہ کیا ۔شفق بلندی سے واضح طور پر نظر آرہا تھا اس وقت علامہ اقبال یاد آئے
سُورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ اُفُق سے لے کر لالے کے پھول مارے
پہنا دیا شفَق نے سونے کا سارا زیور
قُدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اُتارے
اگہار گاؤں کوٹلی کے مضافات میں ہے ۔وہاں کے پیر صاحب نے ایک ہی ڈیزائن کی سارے علاقے میں سڑک کے کنارے خوبصورت مسجدیں بنوائیں ہیں۔ ایک عید پر اگہار حاضری دی تھی ۔کسی کو خیال آیا کہ آگہار میں اگ آتا ہے اور بزرگوں کے گاؤں میں آگ توبہ توبہ یہ لفظ مناسب نہیں ہے ۔اس کی جگہ گل معنی پھول فٹ کیا جائے تو نام سیدھا ہو جائے گا۔ اس طرح اگہار پہلے اگہار شریف میں بدلا اور پھر گلہار شریف بن گیا۔
1984 کی بات ہے ھم لوگ فیلڈ ہاسپیٹل کوٹلی میں تھے کیپٹن اعجاز آرٹلری ہمارے کوارٹر ماسٹر تھے ۔ان کے عجیب و غریب شوق تھے۔انہوں نے نہ صرف سانپ پالے ہوئے تھے بلکہ سانپوں والا جار اپنی آفس ٹیبل پر رکھا ہوا تھا ۔شام کو انہیں جار سے نکال کر واک کراتے تھے۔ پیرا ٹروپر کورس انہوں نے کیا ہوا تھا۔کمانڈو کورس کے لئے گئے تو سانپ کیپٹن منیر انیستھیٹسٹ کے حوالے کر گئے کہ ان کا خیال رکھیں انہوں نے گھبرا کر دوسرے دن سانپ گھر سے باہر پھینک دئے۔
ویک اینڈ پر ان کو ہائیکنگ کا دورہ پرتا تھا ایک دن ہم بھی ان کے قابو آ گئے اور دریا پونچھ کے کنارے ایک پہاڑی پر چڑھے یہ کوئی تین گھنٹے کا نسخہ تھا۔کیپٹین خدابخش سرجن بھی ساتھ تھے۔
اعجاز صاحب کے پاس کالا ھنڈا 70 تھا اس پر وہ بیگم اور دو بچوں سمیت چھٹی پر اپنے گھر لا ہور جاتے تھے۔
میری پوسٹنگ ملٹری کالج جہلم سے کوٹلی ہوئی تھی ۔اعجاز صاحب کا چھوٹا بھائی ضیا ملٹری کالج میں کیڈٹ تھا اور اس کا کالج ہاسپیٹل میں آنا جانا لگا رھتا تھا۔اس پرانے حوالے سے اعجاز صاحب ہم پر شفقت فرماتے تھے ۔کوٹلی میں پڑوسی ہونے کے ناطے سے ہماری بیگمات کی دوستی تھی۔
اعجاز صاحب کمانڈو کورس نہ کر سکے تو انہوں نے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ سے مشورہ کیا تو ارشاد ہوا
شمشیر و سناں اول،طاؤس و رباب آخر
کمانڈو نہیں بن سکے تو اعجاز صاحب نے1989 میں آرمی سکول آف میوزک ایبٹ آباد میں داخلہ لے لیا۔ہماری پوسٹنگ انہی دنوں سی ایم ایچ ایبٹ آباد میں تھی دوبارہ تعلقات کی تجدید ہوئی ۔ ضیاء ان کو ملنے آیا تو ہمارے گھر کا چکر لگایا اس دن جمعہ تھا نمازہم نے گھر کے قریب باڑہ مارکیٹ جھگیاں میں پڑھی۔اعجاز صاحب سے 1989 کے بعد ملاقات نہیں ہوئی۔
2005 میں ہماری پوسٹنگ پی او ایف ہاسپیٹل واہ میں ہوئی۔عالمگیرین نیٹ پر پتہ چلا کہ ضیاء نے ٹیکسٹائل انجینیرنگ کی ڈگری لی تھی اور ان دنوں منوں ٹیکسٹائل ملز حسن ابدال کا باس تھا۔ضیاء نے اپنی مل میں ایک عالمگیرین ڈنر رکھا اس میں ضیاء سے آخری ملاقات ہوئی۔اس ڈنر میں ملٹری کالج کے مایہ ناز استاد راشد سعید صاحب کے چھوٹے بیٹے سے بھی ملاقات ہوئی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔