کتابوں کا پجاری سفارت کار فیصل نیاز ترمذی
ابوظہبی میں 34واں انٹرنیشنل کتاب میلہ جاری ہے۔ کتابوں کی اس نمائش کی ابتداء 26اپریل کو ہوئی جس کی 99فیصد بکنگ اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی مکمل ہو گئی تھی۔ اس دفعہ”اردو بکس ورلڈ” کے چیف آرگنائزر سرمد خان اور سفیر پاکستان فیصل نیاز ترمذی کی جدوجہد سے پاکستان کو پہلی بار "جناح پاکستان” کے نام سے نمایاں اور منفرد پوولین الاٹ ہوا جو برطانوی انٹرنیشنل پبلشرز "آسٹن میکولی” کے بعد سب سے بڑا اور خوبصورت پویلیئن ہے۔ یہ کتاب میلہ ابوظہبی "ایڈنیک سنٹر” میں منعقد ہو رہا ہے جہاں اردو بکس ورلڈ کا پویلئین حال نمبر8 میں ہے، جس کا نمبر 8C42 ہے۔
یہ کتاب میلہ چھبیس اپریل سے پانچ مئی 2025 تک منعقد ہو گا جس میں کتابوں کی خرید و فروخت کے علاوہ 2,000 سے زائد سرگرمیاں شامل ہوں گی، جن میں سیمینارز، پینل ڈسکشنز، مصنفین کا تعارف و بک سائننگ، ورکشاپس اور تفریحی پروگرامز شامل ہیں۔
پاکستانی سفیر کی کتابوں سے دلچسپی اور دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان سے میری درجن بھر ملاقاتوں کا وسیلہ ہمیشہ "کتاب” بنی ہے۔ وہ متحدہ عرب امارات میں مقیم کتابوں کے مصنفین کی جی بھر کر حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ گزشتہ روز میں نے دیکھا کہ وہ امارات سے باہر رہنے والے اردو رائٹرز کی رہنمائی اور مدد کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔ 27اپریل کو اردو جناح پویلئین پر پاکستان، امارات اور دیگر ممالک سے اردو کے معروف مصنفین نے جمع ہونا تھا۔ پاکستان سے "نیشنل بک فاؤنڈیشن”
کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر کامران جہانگیر اور سیکریٹری مراد علی مہمند آئے ہوئے تھے، جن میں امارات کے مصنفین میں فکشن رائٹر نبرس صاحبہ، دبئی سے سفر نامہ "کمنگ بیک” (Coming Back) کے لکھاری شعیب گنڈا پور، آسٹریلیا سے "ترکی یار من زبان” کے مصنف ڈاکٹر تصور بھٹہ اور ان کی ادب دوست بہن شابینہ، دبئی ہی سے فکشن رائٹر اور شارٹ سٹوریز کی انگریزی کتاب "مایا پیراڈاکس” (Maya’s Paradox) کی مصنفہ آصمہ محمد، مراکش سے ابھرتے ہوئے منفرد انداز کے ناول نگار اور انگریزی زبان میں لکھے ناول "آواز اور گرمی کا سال” (The Year of Sound and Heat) کے مصنف زین سعید جس کے ناول نے 2022ء کا بیسٹ فکشن "کے ایل ایف” (KLF) ایوارڈ جیتا اور دیگر مصنفین (معزرت کہ جن کے نام یاد نہیں رہے) اردو بکس ورلڈ پر موجود تھے جب لگ بھگ دو بجے محترم المقام فیصل نیاز ترمذی صاحب جناح پویلئین پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ کوئی سرکاری عملہ نہیں تھا اور وہ بڑی سادگی سے بغیر کسی پروٹوکول کے تمام اردو بک لوورز کے درمیان گھل مل گئے، مصنفین نے انہیں اپنی سائن شدہ کتب پیش کیں، کئی وزٹرز کو انہوں نے کتابیں سائن کر کے بھی دیں، اور لگ بھگ ایک گھنٹہ تک وہ کتابوں کے اس پولئین پر بنفس نفیس موجود رہے جس کا "جناح پویلئین” نام انہوں نے بڑی محبت اور دوڑ دھوپ سے منظور کروایا تھا۔
اسی روز انہوں نے شام ساڑھے چھ بجے پاکستان کے سفارت خانہ میں ابوظہبی میں مقیم صبا کریم خان کی انگریزی فکشن کتاب، ” پیچیدہ گھر” کے عنوان
Home, it’s complicated, By Saba Karim Khan
سے لکھی گئی کتاب کی افتتاحی تقریب اور ڈسکشن منعقد کروائی۔ سرمد خان، ان کا عملہ اور راقم الحروف تقریب حال میں پہنچے تو پروگرام جاری تھا۔ اس دوران صبا کریم نے اپنی گفتگو اور تقریر سے پورا وقت حاضرین پر سحر طاری کیئے رکھا، سٹیج پر مرد میزبان اور ایک خاتون مصنف تبصرہ نگار بھی موجود تھیں، انہوں نے بھی گو کہ متاثرکن باتیں کیں مگر صبا کریم کا انداز بیان اور اپنے موضوع پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ انہوں نے دیگر مقررین کے نام تک بھلوا دیئے۔ ہم انتظار کر رہے تھے کہ سفیر صاحب محفل میں کب تشریف لاتے ہیں مگر یہ دیکھ کر ہم حیران رہ گئے کہ جب سٹیج پر خطاب کرنے کے لیئے سفیر صاحب کو بلایا گیا تو وہ پہلے ہی پورا وقت سامعین میں بیٹھ کر سادگی سے پروگرام سن رہے تھے۔ انہوں نے تقریر میں کتابوں کی اہمیت پر بڑی مدلل اور خوبصورت تقریر اور کہا کہ، "ہم مصنفین کو ڈھونڈ رہے ہیں۔”
آخر میں فیصل نیاز ترمزی صاحب نے اپنی تقریر میں تمام شرکاء سے ابوظہبی میں منعقدہ بک فیئر میں شرکت کی التجا کی اور کہا کہ وہ "اردو بکس ورلڈ” پر اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ جائیں اور کتابیں خریدیں تاکہ بچوں میں بھی مطالعہ کا شوق پیدا ہو۔ تقریب کے اختتام پر ڈنر کے دوران بھی وہ ہمہ وقت موجود رہے اور کتاب دوستوں سے کہتے نظر آئے کہ وہ خود کو مطالعہ کے عادی بنائیں۔ آج تک جتنی بھی قوموں نے ترقی کی ہے وہ کتابیں پڑھنے والی اقوام تھیں۔ سٹیج پر ایک مقرر نے کہا تھا کہ وہ سال میں 50کتابیں پڑھتے ہیں۔ ہمیں بھی چایئے کہ ہم ترقی کرنا چاہتے تو زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کریں۔
عزت مآب فیصل نیاز ترمذی صاحب 2مئی 2025ء کو شام 5بجے بھی ابوظہبی سفارت خانہ پاکستان میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی و پذیرائی منعقد کروا رہے ہیں۔ اس کتاب کا نام "ترکی یار من زبان” ہے۔ موصوف سفیر مکرم کی صدارت میں منعقدہ اس پروگرام کے میزبان ممتاز مصنف و صدر اخوت یورپ عارف انیس ہونگے، جبکہ مہمانان خصوصی میں ڈاکٹر شبینہ اسلم، سرمد خان، ڈاکٹر حسن خلیل، منسٹر قونصلر ڈاکٹر کامران شیخ، امر گگن، جہلم بک کارنر اور معروف شاعر و ماہر تعلیم سلمان احمد خان شامل ہیں۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ زندگی میں جتنا ذہنی اور روحانی ارتقاء حاصل ہوتا ہے اس کا ذریعہ اور وسیلہ ہمیشہ کتابیں بنتی ہیں۔ ہر انسان کے اندر ایک کتاب ہوتی ہے مگر اسے اس وقت تک نہیں پڑھا جا سکتا جب تک ہم دوسروں کی لکھی ہوئی کتابیں نہیں پڑھتے ہیں۔ سفیر پاکستان نے اس روز ہماری دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو بکس ورلڈ سے قرۃ العين حيدر اور مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی کتابیں خریدیں۔ انہوں نے کتابوں کی خریداری کا ذکر اپنے صدارتی خطاب میں بھی کیا۔ ہم ان کے خصوصی طور پر شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں کتاب بینی کے لیئے تحریک اور موٹیویشن دی۔ وہ اپنی طرح ہمیں بھی کتب بینی کی عادت ڈال رہے ہیں۔ یہ حصول علم کے حوالے سے بڑا نیک کام ہے۔ ایک حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ، "علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔” علم حاصل کرنا انسان کی روح کے لیئے اتنا ہی ضروری ہے کہ جتنی جسم کو زندہ اور صحت مند رکھنے کے لیئے خوراک لینا ضروری ہے۔ اس لیئے صحت مند اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیئے ہمیں چایئے کہ ہم کتاب پڑھنے کے لیئے روزانہ کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکالیں۔
پرندے اپنے بچوں کو پرواز کا ہنر سکھاتے ہیں اور انہیں اڑنے کا حوصلہ دیتے ہیں، وہ کبھی بھی انہیں گھونسلہ بنا کر نہیں دیتے، اور جو اڑنے کا ہنر سکھاتے ہیں اور گھونسلہ بھی بنا کر دیتے ہیں وہ صحیح معنوں میں آپ کے ہمدرد اور محسن ہوتے ہیں!

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |