احسان کا بدلہ احسان
کہانی کار: سید حبدار قائم
باغ میں ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے پرندے جس طرف بھی دیکھتے کہیں گلابی رنگ کا پھول تھا کہیں پیلے رنگ کا پھول تھا کہیں نیلے رنگ کا پھول تھا اور کہیں سفید رنگ کا پھول کھلا ہوا تھا
جگنو ان سب پھولوں کے ارد گرد گھومتا رہتا تھا لیکن دن کے وقت زیادہ تر وہ گلاب کے پھول کے نیچے چھپ جایا کرتا تھا اس کی یہی ادا تمام پرندوں کو پسند تھی کہ وہ جب شام کا اندھیرا چھا جاتا تھا تو وہ اڑ پڑتا تھا جو پرندے اپنے گھونسلوں میں جانے کے لیے بے تاب ہوتے تھے اور انہیں روشنی ضرورت کی ہوتی تھی آگے آگے جگنو اڑتا تھا اور ان کے گھونسلے تک چلا جاتا تھا وہ پرندے اس کے پیچھے پیچھے اڑ کر اپنے گھونسلوں تک پہنچ جاتے تھے جگنو کی یہ ادا سب کو پسند تھی کیونکہ سارے پرندوں کو اپنے گھر تک جانے کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی تھی جگنو ان سب کو روشنی مہیا کرتا اور ان کو گھروں تک پہنچا دیتا تھا یوں ہی سلسلہ جاری تھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سارے پرندے اپنے اپنے گھروں کو واپس جا چکے تھے لیکن بلبل باغ میں ہی گانے گاۓ جا رہا تھا اس نے یہ نہ سوچا کہ میں نے گھر جانا ہے وہ کبھی ایک پھول پر جاتا تو کبھی دوسرے پھول پر جاتا اور اپنا وقت ضائع کرتا رہا اس نے کچھ پھل بھی کھائے لیکن جب شام کا اندھیرا چھا گیا تو وہ بہت زیادہ پریشان ہو گیا جگنو اس روز جنگل میں اپنے دوست کو ملنے کے لیے گیا ہوا تھا تو اس لیے وہ بلبل کو نہ مل سکا تھا آخر کار دوست کے گھر سے جگنو جب واپس اپنے باغ کی طرف آیا تو بلبل نے خدا کا شکر ادا کیا اور اس سے کہا کہ اے دوست مجھے اپنے گھر تک لے جاؤ میں اپنے گھونسلے میں جانا چاہتا ہوں رات کا اندھیرا چھا چکا ہے اور میرے لیے یہاں رہنا بہت مشکل ہے جگنو نے کہا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ دوسروں کو راستہ دکھانے والے ہمیشہ اس کے محبوب ہوتے ہیں اس لیے وہ اسے ضرور راستہ دکھائے گا چنانچہ جگنو اس کے آگے آگے اڑنے لگا اور بلبل اس کے پیچھے پیچھے اڑنے لگا آخر کار جگنو نے بلبل کو گھر پہنچا دیا
بس اسی بات پر بلبل کی جگنو کے ساتھ دوستی ہو گئی ان کی دوستی روز بروز بڑھ رہی تھی چنانچہ ایک دن ایسے ہوا کہ جگنو باغ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے اوپر ہدہد نے حملہ کر دیا اور اس کو اپنی مضبوط چونچ میں پکڑ لیا یہ معاملہ بلبل دیکھ رہا تھا بلبل نے ہد ہد پر حملہ کر دیا اور اپنے دوست جگنو کو اس کی مضبوط چونچ سے آزاد کرا لیا اور جگنو جھٹ سے اڑا اور گلاب کے نیچے جا کر چھپ گیا یوں اس کی جان ہدہد کے حملے سے بچ گئی پھر دونوں کی دوستی آپس میں بہت مضبوط ہو گئی باغ میں بلبل گیت گاتا تھا اور جگنو اس کے گیتوں پر واہ واہ کرتا تھا دن یوں ہی گزر رہے تھے اسی حالت میں ان کا پیار بڑھ رہا تھا ہدہد ہمیشہ حملہ کرنے کے لیے آتا لیکن جگنو کو بلبل بچا لیتا تھا دونوں ایک دوسرے کے لیے بہت اہم ہو گۓ تھے ان کو پتہ چل گیا تھا کہ اتفاق میں برکت ہے ایک دوسرے کی مدد کرنے سے اللہ تعالی کی ذات راضی ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کی جان بچانے کو اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کا طریقہ کہتے تھے یوں ان دونوں کی دوستی ایک دوسرے کی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہو گئی اور وہ باغ میں دونوں مل کر رہنے لگے
پیارے بچو !
سورہ البقرہ کی آیت نمبر 195 میں اللہ پاک کا ارشاد ہے
’’ اور احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ‘‘
اس لیے ہمیں ایک دوسرے پر احسان کرنا چاہیے جیسے جگنو نے بلبل کو راہ دکھایا اور بلبل نے جگنو کی جان ہد ہد سے بچائ اس طرح ہمیں بھی ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے
سچ ہے احسان کا بدلہ احسان ہے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔