بچے ہمارے عہد کے
عبداللہ بخاری کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا گیم کھیل رہا تھا ساتھ ہی ساتھ وہ گوگل سے کچھ تلاش بھی کرتا یوٹیوب سے کارٹون بھی دیکھتا۔ ہم نے کتاب رکھی اور غور سے عبداللہ کی کی حرکات دیکھنے لگے کہ یہ کتاب فطرت ہے اس کا اپنا ہی لطف ہے ۔ کچھ دیر اس کی حرکات سے محظوظ ہونے کے بعد ہمارے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ کچھ ایسے تھا
ہم: عبداللہ
عبداللہ : جی
(لیکن اس نے مُڑ کر ہمیں دیکھا نہیں اپنے کام میں مصروف رہا)
ہم: ایک بات تو سنو
عبداللہ: رکیں ذرا یہ لیول ہو جائے
(دیکھا اب کے بھی نہیں اس نے مُڑ کے)
ہم: اچھا ! عبداللہ ایک بات بتائیں
عبداللہ: جی
(بدستور)
ہم: بیٹا ہمارے زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا، جب پہلی بار انٹرنیٹ آیا تو ہماری عمر پینتیس برس ہوچکی تھی اور یہ موبائل تو کل کی بات ہے
عبداللہ نے گیم کھیلنا چھوڑ دی اور کچھ لمحے بالکل خاموش ہوگیا ، کرسی مکمل پیچھے گھمائی اور کہا “ تو ماموں ! اتنی عمر آپ نے پھر گزاری کیسے ؟” اب کے حیران ہونے کی باری ہماری تھی۔
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔