صورت بھی حسیں ہے تیری سیرت بھی حسیں ہے
ثانی تیرا آفاق میں واللہ نہیں ہے
گیسو ہیں کہ خوشبوسے معطر ہیں گھٹائیں
چہرہ ہے کہ تابندہ کوئی ماہِ مبیں ہے
کیا ارفع واعلیٰ ہے مقامِ شاہِ والا
جھکتی درِ اقدس پہ فرشتوں کی جبیں ہے
کرتے ہیں ملائک بھی شب وروز سلامی
کہتے ہیں کہ یہ بارگہِ خسروِ دیں ہے
سایہ تیری رحمت کا ہر اک عاصی کے سر پہ
ہوگا سرِ محشر تیری امت کو یقیں ہے
اس پر بھی ہو اک نظرِ کرم اے میرے آقا!
بسملؔ تیرے دروازے کا ادنیٰ سا مکیں ہے
سردار سلطان محمود بسملؔ
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔