خوشبوئے "سائبان "
تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قائم
سید شاکر القادری چشتی نظامی دیدہ ٕ تر سے درِ رسولﷺ پر دستک دیتے ہیں جواب ملے یا نہ ملے درِ رسولﷺ سے سرکار ﷺ کی خوشبو کشید کرتے ہوٸے مدحت آراٸی کرتے ہیں اور ایسی مدحت آراٸی کہ سننے پڑھنے والے عجیب سے کیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یہ کیف مسحور کر دیتا ہے پوری کاٸنات میں حضور کی مدحت آراٸیاں بکھری پڑی ہیں بس ان کو دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیے سید شاکر القادری جانتے ہیں کہ حضور شفیعِ اعظم ہیں حضور بشیر و نذیر ہیں حضور سراجِ منیر ہیں
حضور سیدِ ابرار ہیں حضور احمدِ مختار ہیں حضور مدنی تاجدار ہیں حضور حبیبِ غفار حضور محبوبِ ستار ہیں حضور نبی مکرم ہیں حضور رسول معظم ہیں حضور پیغمبرِ حاکم ہیں حضور رہبرِ کامل ہیں حضور بدر و منیر ہیں تو یہ جانتے ہوٸے آپ عالم وجد اور اضطرابِ دید میں قلم کو رقصاں بر قرطاس کرتے ہیں تو قلم لفظ لفظ کو خوشبو سے بھر دیتا ہے اور ان کے پرنور تبسم ﷺ کی اداٸیں اور رعناٸیاں رقم کرتا ہے آپ کے فردوسی اشعار پڑھ کر قارٸین آپ بھی اپنے فکر و آگہی معنبر کیجیے :۔
کس کو ہے تردد تیری والا حسبی میں
کس آنکھ نے دیکھا ترا ہمسر ، مرے سرور!
تجھ ہی سے معطر ہے ضمیرِ گلِ تازہ
تجھ ہی سے منور مہ و اختر ، مرے سرور!
آیات ”ضحٰی“ بہر تسلی ہوٸیں نازل
اور بہرِ ثنا سورہ ٕکوثر ، مرے سرور،
قوسین کی منزل کے مقابل شبِ اسرا
ہر اوج ہے پستی میں فروتر ، مرے سرور!
”سورج کو ابھرنے نہیں دیتا ترا حبشی“
لوٹاتا ہے سورج ترا حیدر، مرے سرور!
پھر مجھ کو دکھا شہرِ ضیا بار کے منظر
شاکر پہ عنایت ہو مکرر ، مرے سرور!
سید شاکر القادری چشتی نظامی کی نعت گوٸی بالکل ایسے ہی ہے جیسے ان کی فکرِ رسا کے حسیاتی موسموں میں نسیمِ حجاز کے نشیلے جھونکے رقص کناں ہوں آپ دوسروں کو بھی دعوتِ فکر و عمل دیتے ہیں اور یہ دعوتِ فکر و عمل آگہی کے حصول کے لیے یوں ہوتی ہے :۔
جھوم کر ابرِ کرم بار چلا آۓ گا
کاسہ ٕچشم کو وابستہ ٕ جزبات تو کر
باب ایجاب و کرم ان کا کھلا ہے ہر دم
تو کبھی نعت کے لہجے میں مناجات توکر
نعت کے لہجے میں مناجات ہوں تو انسان جمالیاتی چمک دمک کے ساتھ مدحت سراٸی کی خوشبووں سے مہکتا جاتا ہے اور یہ جان لیتا ہے کہ میرے آقا کعبہ ٕ اعظم ہیں
میرے آقا جانِ مجسم ہیں
میرے آقا نورِ مجسم ہیں
میرے آقا فخرِ دو عالم ہیں
میرے آقا مرسلِ خاتم ہیں
میرے آقا خیرِ مجسم ہیں
میرے آقا صدرِ مکرم ہیں
میرے آقا نورِ مقدم ہیں
میرے آقا نیرِ اعظم ہیں
میرے آقا مرکزِ عالم ہیں
میرے آقا وارثِ زمزم ہیں
اس انسان کی فکر قافلہ ٕ حسانؓ کے مبارک قدموں کی دھول اپنے چہرے پر لگانے کو فخر سمجھتی ہے اسے مدحت کے گل دان میں مضامین نو بہ نو مسکراتے ہوٸے ملتے ہیں اور وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پر نور سراپا دل و نگاہ میں بسا کر روحانی تلذذ حاصل کرتا ہے سید شاکر القادری چشتی نظامی بھی ایسی شخصیت ہیں جنہیں فکرِ مدحت نے بہت سارے شعرا سے ممتاز کر دیا ہے آپ کی شاعری سلاست اور بلاغت کا نمونہ ہے جو قاری کی سیرت پر اثر انداز ہو کر اسے آنحضور ﷺ کی مودت سے سرشار کرتی ہے آپ نے اپنے دل کی باتیں درِ اقدس پر خیالات کی رعناٸی لے کر کچھ اس طرح کی ہیں :۔
سلوک عشق کا رہرو نہ مرہونِ خضر ٹھہرا
اسے تو ایک آنسو ہی چراغِ رہ گزر ٹھہرا
جو رنگ و بو میں پرتو گیر ہو تیرے تبسم سے
چمن زارِ تخیل میں وہی گل معتبر ٹھہرا
ردیفیں دم بخود الفاظ چپ ہیں قافیے خاموش
ثنا کے باب میں اوج سخن واماندہ تر ٹھہرا
ھر اک اوجِ تخیل سے ہیں بالا عظمتیں تیری
وراۓ سر حدِ ادراک تیرا مستقر ٹھہرا
شب اوہام اک نورِ یقیں سے جگ مگا اٹھی
وہ نقش پا فروغِ مطلعِ نورِ سحر ٹھہرا
مجھے یہ کہنے میں کوٸی شک نہیں ہے کہ
سید شاکر القادری چشتی نظامی میرے شہر کے سرمایہ ٕ افتخار ہیں وہ جب بولتے ہیں تو لبوں سے مدحت کے ترانے فضاوں میں نشہ بھر دیتے ہیں اور یہ مقدس نشہ سننے والے کے الہام میں نورانی طلاطم برپا کر دیتا ہے کیونکہ حضور ﷺ کی محبت میں سچاٸی فکر کو ندرتِ خیال سے ممیز کرتی ہے اور انسان جان لیتا ہے کہ میرے آقا ﷺ
جو خاصہ کردگار ہیں جو شافع یومِ قرار ہیں جو صدرِ انجمنِ لیل و نہار ہیں جو آفتابِ نو بہار ہیں جو سرورِ عالم ہیں جو مونسِ آدم ہیں جو قبلہ ٕ عالم ہیں وہ ہی پل صراط پر ہماری شفاعت فرماٸیں گے ان کی شفاعت دو عالم سے زیادہ وزنی ہو گی جسے مل گٸی وہ کامرانی کے جھولے پر سوار ہو کر جنت الفردوس کے مزے لے گا وہاں سرکار ﷺ کی مدحت ہو گی سید شاکر القادری وہاں مدحت سناتے ہوں گے آپ کی کتاب "ساٸبان” کی چند خوشبودار سطریں ملاحظہ کیجیے :۔
رہوارِ قلم سر نہ اٹھا بے ادبی ہے
مقصودِ نظر مدحِ رسول عربیﷺ ہے
گل بار، شکر ریز دھنک رنگ ، مہک خیز
اس جانِ دو عالم کی عجب خندہ لبی ہے
کیا رنگِ عطا ہے کیا سوز ہے کیا حسنِ تکلم ہے لکھنے کا کیا ناز و انداز ہے یہ رنگ ہر کسی کے نصیب میں کہاں سید شاکر القادری کے بخت سکندر سے بڑھ کر ہیں آپ کے خیالات خود بخود حرف و صوت کے سانچوں میں ڈھل کر عقل و شعور کے در وا کرتے ہیں کیونکہ حضور ہی افضل الصلوت ہیں وہ خلاصہ موجودات ہیں وہ صاحب آیات ہیں وہ صاحب معجزات ہیں وہ باعث تخلیق کائنات ہیں وہ جامع صفات ہیں وہ اصل کائنات ہیں وہ فخر موجودات ہیں وہ ارفع الدرجات ہیں وہ اکمل الرکات ہیں وہ واصل ذات ہیں گلوں کی لطافت ہو یا بلبلوں کی صدا درختوں کی سبز پوشاک ہو یا نیلے آسمان کی رفعتیں سب آپ کے بغیر بے رنگ و بے نور ہیں حضرت شاکر نے کتنے خوب صورت اور برجستہ شعر کہے ہیں ملاحظہ کیجیے:۔
ضمیر گل کو اگر ہو نہ معرفت تیری
تو پھر لطافتیں کیسی؟ نزاکتیں کیسی؟
ترے خیال کو محراب کر لیا میں نے
ترا خیال نہ ہو تو عبادتیں کیسی؟
یہ جب آل عبا کی ردا مرے سر پر
اگر نہ سایہ فگن ہو محبتیں کیسی؟
حضور ﷺ کے حسن اور مبارک نور سے کاٸنات کے رنگ نکھرے یہ حسن و تکلم آپ کے وسیلے سے ملا ہے مدحت کے زمرے میں
ان گنت خوبیوں اور اوصاف کو بھلا کیسے اکٹھا کیا جا سکتا ہے قرآن جیسے لفظ کہاں سے لاٸیں جناب حضرت ابو طالب علیہ السلام کا قلم دان کہاں سے لاٸیں معنبر حسانیؓ فکر کہاں سے لاٸیں لیکن حضرت شاکر القادری جانتے ہیں کہ سرکار مبدا ء کائنات ہیں سرکار مخزنِ کائنات ہیں سرکار منشائے کائنات ہیں سرکار مقصودِ کائنات ہیں سرکار سیدِ کائنات ہیں سرکار سرورِ کائنات ہیں سرکار مقصدِ حیات ہیں سرکار منبع ٕ فیوضات ہیں اپنی کتاب "ساٸبان” میں آپ نے اس کلام کو جو رنگ و نور عطا کیا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی کیونکہ یہ اقبالؒ کا رنگ ہے خود ملاحظہ فرماٸیں:۔
دیارِ فکر کے روشن ہوۓ ہیں بام۔۔۔۔۔تمام
فضاۓ خیمہ ہستی ہے مشک فام۔۔۔۔۔تمام
وہ جن کے نام کے طغرے ہیں عرشِ اعظم پر
جبینِ دل پہ رقم ہیں انھی کے نام ۔۔۔۔تمام
نعیم زارِ مدینہ کے ذرے ذرے پر
نثار ہنزہ و کشمیر پہلگام۔۔۔۔۔۔۔۔تمام
تو ہے مُحَمَّد و محمود و حامد احمدﷺ
بنے ہیں حمد کے صیغے سے تیرے نام۔۔۔تمام
مقامِ سدرہ ہو، قوسین ہو کہ طوبیٰ ہو
ترے مقام کے آگے فرو مقام ۔۔۔تمام
ہے ماہتاب ستاروں کے جیسے جھرمٹ میں
نبی کے صحنِ ارادت میں ہیں غلام ۔۔۔تمام
نجات کا ہیں سفینہ یہ اہل بیت نبیﷺ
یہ خوش نسب مرے ہادی ، مرے امام۔۔تمام
انہی کے نور کا عکسِ جمیل ہیں شاکر
نجوم ، مہر، ثریا، مہِ تمام۔۔۔۔تمام
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کے آگے صرف اللہ رب العزت کا مقام ہے اس کے علاوہ کوٸی مقام آپ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ جہانِ رنگ و نور سب آپ کے لیے سجایا گیا ہے سب آپ کی مدحت ہے پرندوں کا چہچہانا تتلیوں کا رقص جمیل گلوں کی اداٸیں چاند ستارے سورج اور سارا نظامِ کاٸنات آپ کی محبت میں بنایا اور سجایا گیا ہے۔
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔