ورق ہوا ہے خوشبو خوشبو” میں مسعود چشتی کے فکرِ رسا کے حسیاتی موسموں میں نسیمِ حجاز کے نشیلے جھونکے رقص کناں دکھائی دیتے ہیں اور یہ نعتیہ کتاب ایک خوبصورت ردیف "خوشبو” کی مفید دنیائے بسیط کے شستہ مناظر کی تصویر کشی کرتی ہے مسعود چشتی کے نعتیہ کلام ان کی فکری نظافت اور وجدانِ قلب کی روداد ہیں "ورق ہوا ہے خوشبو خوشبو” میں لفظ لفظ گوہر ہے ،لفظ لفظ عنبر ہے ،لفظ لفظ خوشبو ہے جو سہل ممتنع اور ندرت کے ساتھ ساتھ فکر و نظر کے جمالیاتی حسن کا آئینہ دار ہے آقائے دو جہاں کی نعت خصوصی فیض و کرم سے عطا ہوتی ہے ہر لفظ عطائے رب ذوالجلال کے ساتھ ساتھ عطائے امواجِ بقا، عطائے چشمہ ءعلم و حکمت نازش، عطائے سندِ امامت، عطائے غنچہ ء راز وحدت، عطائے جوہرِ فرد عزت، عطائے ختمِ دور رسالت، عطائے محبوبِ رب العزت، عطائے مالکِ کوثر و جنت، عطائے سلطانِ دینِ ملت، عطائے شمعِ بزم ہدایت، عطائے مخزنِ اسرارِ ربانی، عطائے مرکزِ انوار رحمانی،عطائے مصدرِ فیوضِ یزدانی ،عطائے قاسمِ برکاتِ حمدانی، عطائے دانشِ برہانی، عطائے صابر و شاکر، عطائے مدثر و مزمل، عطائے مزمل و مرسل، عطائے انتہائے کمال، عطائے منتہائے جمال، عطائے مبنع خوبی و کمال، عطائے بے نظیر و بے مثال، عطائے فخرِ جہاں ،عطائے نیرِ درخشاں،عطائے نجمِ تاباں، عطائے ماہِ فروزاں، عطائے صبحِ درخشاں، عطائے نورِ بداماں، عطائے مونسِ دلِ شکستگاں، عطائے راحتِ قلوب عاشقاں، عطائے نورِ دیدہ ء مشتاقاں، عطائے موجبِ ناز عارفاں، عطائے باعثِ فخرِ صادقاں، عطائے رحیمِ بے کساں، عطائے حُبِ غریباں، عطائے شاہِ جناں، عطائے جانِ جاناں، عطائے قبلہ ء زہراں، عطائے کعبہء قدسیاں سے ظہور پزیر ہوتا ہے۔ ان الفاظ کی صوتی ترنگ آبشارِ الہام کے ساتھ جب مدحت کو گلریز کرتی ہے تو ردیف”خوشبو” جیسی کتاب منصہ ء شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے ۔
مسعود چشتی کتاب کی ابتدا حمد سے کرتے ہیں اور مالک دو جہاں سے یوں دعا کرتے ہیں:۔
میرے کلام کو مہکائے تسمیہ خوشبو
مرے خدا ہو عطا مجھ کو نعتیہ خوشبو
میں نے اپنی کتاب "نماز شب” میں بھی یہ سطریں رقم کی ہیں ۔ کہ آج سے چودہ سو سال قبل کائنات جب کفر و شر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مستور تھی زندگی کے آئینہ خانے میں کہیں وحدت کے رنگ نظر نہیں آتے تھے۔ جابر حکمرانوں کے ہاتھوں میں وقت کی طنابیں تھیں۔ شبِ سیاہ نے پر نور سحر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ عرب کے دروغ گوئی کے رسیا جہالت کی وادی میں بھٹک رہے تھے۔ کمزوروں، یتیموں اور بے بسوں کو نویدِ حیات کا مژدہ سنانے والا کوئی نہ تھا۔
نومولود بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ مئے نوشی ان کی رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ایسے حالات میں رحمت ستارالعیوب نے جوش میں آکر رنگ بدلا اور کائنات کے ذرے ذرے کو ایک نئی ضیا عطا کر کے حضرت بی بی آمنہ سلام اللہ علیہا کے پاک آشیاں پر ایک شفیعِ معظم ﷺ کی آمد سے حالات کو یوں بدلا کہ عرب میں دروغ گوئی کے رسیا حق گوئی و بے باکی کے علمبردار بن گئے جو شتربان تھے جہاں باں بن گئے ۔ آپؐ کی طاہر مجلس نے عرب کے لوگوں کو یکسر بدل ڈالا جسے مسعود چشتی کی بصیرت یوں دیکھتی ہے:۔
جن کو حاصل ہوئی سرکار کی صحبت،سارے
بن گئے فضلِ خدا سے وہ امام خوشبو
شعورِ آدمی جانتا ہے کہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراطِ مستقیم پر آپؐ نے گامزن کیا
بے نواؤں اور بے کسوں کی حالتِ زار پر آپ رحم بن کر برسے اور ان کو عزت و ناموس کے قیمتی زیور سے آراستہ کیا۔ اور یہ سب عزتیں اور عظمتیں آقا پاکؐ کے دم سے ظہور پزیر ہوئیں۔ مسعود چشتی کے الہام پر ان عظمتوں کی آمد یوں مشکِ عنبر بن کر اتری:۔
بے نواوں،بے کسوں کو بخش دے جو عزتیں
دیتی ہے وہ عظمتیں گلزارِ طیبہ کی مہک
اس میں کوئی شک نہیں کہ صبحِ درخشاں دلوں کو ایک کیف عطا کرتی ہے اور یہ کیف ایک عجیب طمانیت بن کر وجدانِ روح میں اترتا ہے کیونکہ کائنات کی یہ حسن و رعنائی آپؐ کے ہی دم قدم سے ہے گلابوں کی شائستگی اور خوشبو سب آقا پاک ؐکی خوشبو سے کشید کی گئی ہیں اور یہ سب آپؐ کے نعلین کا صدقہ ہیں یہی اظہاریہ اس شعر کے حسن کا باعث ہے ملاحظہ کیجیے:۔
جمالِ صبحِ ازل میں جناب کی خوشبو
ہے صدقہ آپ کا عطر و گلاب کی خوشبو
سفید سیاہ زرد اور زمردی رنگ کی ایک خوشبو دار لکڑی کو "عود” کہا جاتا ہے کہتے ہیں ان میں جو سب سے عمدہ لکڑی ہوتی ہے وہ پانی میں ڈوب جاتی ہے اسے عودِ غرقی کہتے ہیں ۔ عود کی خوشبو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت پسند تھی صاحبِ مطالعہ شاعر مسعود چشتی جب
” عود کی خوشبو” کو ردیف میں استعمال کرتے ہیں تو یہ اُن کے اوجِ خیال کو ایک نئی رعنائی عطا کرتی ہے جو کلام کے حسن کو چار چاند لگا دیتی ہے ۔ اس نعت میں ہر شعر فکری ندرت کا آئینہ دار ہے ایک شعر ملاحظہ کیجیے:۔
میرے حضور کی چاہت ہے عود کی خوشبو
ہوئی ہمیں بھی عنایت ہے عود کی خوشبو
ساری کائنات میں آپ کا نور اور خوشبو رچی ہوئی ہے تخیل کی ادراکی ء پرواز میں انہی کا ریشمی تبسم رچا ہوا ہے جو مرکزِ عالم ہیں ،جو وارثِ زمزم ہیں ،جو مبداء کائنات ہیں جو مخزنِ کائنات ہیں، جو منشائے کائنات ہیں، جو مقصودِ کائنات ہیں ، جو سیدِ کائنات ہیں ، جو سرور کائنات ہیں ، جو مقصدِ حیات ہیں، جو منبع ء فیوضات ہیں جو افضل الصلوات ہیں، جو خلاصہء موجودات ہیں ، جو صاحبِ آیات ہیں ، جوصاحبِ معجزات ہیں، جو باعثِ تخلیقِ کائنات ہیں، جو جامع صفات ہیں ، جو اصلِ کائنات ہیں ،جو فخرِ موجودات ہیں ، جو ارفع الدرجات ہیں ،جو اکمل الرکات ہیں بلکہ جو واصلِ ذات ہیں
انہی کا احساسِ تخیل شاعر کو جلا بخشتا ہے جس کا نورانی اظہاریہ نوکِ قلم یوں اگلتا ہے:۔
میرے احساسِ تخیل کو جو مہکاتی ہے
سوچوں کی جلاوں میں ہے ان کی خوشبو
مشکِ عنبر اور مشک عود وغیرہ کو ملانے سے لخلخہ بنتا ہے جو دماغ کی قوت میں اضافے کے لیے سونگھایا جاتا ہے ایسے الفاظ استعمال کرنا مسعود چشتی کا خاصا ہیں ۔ فکری عفت، ندرتِ خیال اور اسلوبیاتی صباحت سے مزین یہ شعر ملاحظہ کیجیے:۔
رہے معطر و پرنور جس سے دل کا حرم
رہے نصیب میں ہر دم وہ لخلخہ خوشبو
مسعود چشتی اپنے کلام پر اس لیے نازاں ہیں کہ وہ ارفع ذکر کرتے ہیں جسے قرآن نے
"ورفعنا لک ذکرک ” کی سندِ جمیل سے نوازا ہے۔
مسعود چشتی کے نگارخانہء شعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل قاری کے فہم و ادراک کو ایسا نور بخشتے ہیں جن کو قاری پڑھتا جاتا ہے اور عشقِ رسولؐ میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ جدتِ خیال کے رنگ،دھنک میں پرو کر اس لطیف صورت کو قرطاس کے سینہ پر ایسے نقش کرتے ہیں:۔
کروں گا ناز بہ فضلِ خدا نصیبوں پر
ملے جو طیبہ کی بس ایک ثانیہ خوشبو
انہی الفاظ کو اس دعا کے ساتھ سمیٹتا ہوں کہ اللہ پاک مسعود چشتی کو تا زیست آسمانِ ادب پر متمکن رکھ کر ستاروں کی طرح چمکتا دمکتا رکھے اور ہمیں نعت نئے اسلوب کے ساتھ پڑھنے کو ملتی رہے۔آمین۔
سیّد حبدار قائم
آف غریب وال
اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔