کُھرک نِشاں کے نشاں کیمبلپور میں
اٹک کی پرانی مستورات کے نام کچھ یوں ہوتے تھے نور نِشاں ،کرم نِشاں اور بخت نِشاں بخت نِشاں کو کیمبلپور میں بخُت نِشاں تلفظ کیا جاتا تھا۔ خ پر پیش اور ت پر توقف جبکہ ن کے نیچے زیر اور ش مشدد۔
اسی وزن پر ایک درخت کا اسم با مسمی نام بھی ہے۔ کُھرک نِشاں،یہ درخت کمپنی باغ میں تھا۔گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول نمبر دو 1985 میں بنا تو یہ درخت کٹ گیا۔
عام درختوں کے تنے ایک جیسی موٹائی والے cylindericalہوتے ہیں یا ان کی موٹائی نیچے زیادہ ہوتی ہے اور اوپر کم ہوتی جاتی ہے۔لیکن کُھرک نِشاں کا درخت گول مٹول تھا گیند کی طرح نہیں بلکہ بیرلbarrel shape کی طرح گول تھا ۔ نیچے کم موٹائی اور اوپر بھی کم موٹائی تھی درمیان میں ڈھڈ نکلا ہوا تھا۔دو بندوں کے کلاوے میں بھی اس کی موٹائی نہیں آتی تھی ۔اس کا قد چار میٹر سے زیادہ تھا۔
کُھرک نِشاں کے درخت کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پھل pods لگتے تھے ان pods میں پاؤڈر ہوتا تھا ۔اس سفوف کی وجہ سے شدید جلن اور خارش ہوتی تھی ۔تصویر میں پھل کے ساتھ ہی پھل سے نکلا ہوا پاؤڈر پڑا ہے ۔
1967 کی بات ہے ایم سی مڈل سکول اٹک میں ہمارے کچھ ہم جماعت جسیاں، مرزا اور صدر سائیڈ سے تھے۔ وہ کمپنی باغ سے اس کی پھلی کو سکول لاتے تھے۔ وہ چپکے سے اسے دوسرے لڑکوں کی گردن پر لگاتے تھے اور خارش کی وجہ سے اس کی چھلانگوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
شاید اٹک کے کچھ قارئین نے یہ درخت دیکھا ہوگا۔ اس قسم کا اس شکل کا ایک ہی درخت راقم کی نظر سے گزرا ہے اس جیسا درخت کہیں اور دیکھنے میں نہیں آیا۔
اگرچہ راقم کو کُھرک نِشاں کا درخت کل کی طرح یاد ہے پھر بھی اتمام حجت کی خاطر اپنے اٹک والے احباب سے سوال کے ذریعے رابطہ کیا ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں
1968 میں کمپنی باغ اٹک میں ایک بڑا درخت تھا ۔ اس کا نام کُھرک نِشاں تھا۔ اس کے بیج جسیاں والے دوسرے بچوں کی گردن پر رگڑتے تھے اس سے جلن والی خارش ہوتی تھی ۔
کیا آپ کو وہ درخت یاد ہے ؟؟
اس کے جواب میں مرزا گاؤں کے بریگیڈیر ڈاکٹر امانت خان فرماتے ییں۔
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
سر اس درخت کی خارش ابھی بھی گردن پر موجود ہے ۔
زوار نقوی صاحب ہمارے اٹک کے کلاس فیلو ہیں ۔
وہ فرماتے ہیں
یاد ہے کمپنی باغ میں ایک ٹیوب ویل بھی تھا اس میں لڑکے نہا بھی لیتے تھے کُھرک نشاں سے تو بہت تنگ کیا اور ہوئے بھی ۔
جاوید HBL کا مختصر اور جامع جواب
چنگی طرح یاد اے جی 😜😜
قاضی حنیف صاحب جیساں والے ہمارے کلاس فیلو ہیں وہ فرماتے ہیں کُھرک نِشاں کا درخت تو کمپنی باغ کا زیور اور تعارف تھا۔ ڈاہڈا یاد اے۔ پر ظالماں ا سکول بنانے وقت کٹ چھوڑیا۔
نذیر صاحب ڈھوک شرفا والے فرماتے ہیں اس زمانے میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی جب چاہو جہاں سے چاہوں کمپنی باغ میں گھس جاؤ۔ کُھرک نِشاں کا درخت کل کی طرح یاد ہے۔ لیکن وہ درخت سکول والوں نے کاٹ دیا ہے ۔
اب کُھرک نِشاں کانشان بھی مٹ چکا ہے لیکن پریشانی کی بات نہیں کئی اور کُھرک انگیز اور کُھرک افزا نسخے موجود ہیں ۔
؎
گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ نا خوردہ در رگِ تاک است
گلاب کے پھول کی پتیوں کے نیچے سبز ڈوڈی ہوتی ہے اس کو کاٹیں تو اندر سے پانی سا نکلتا ہے اس کو حسب ضرورت گردن پر لگائیں امید ہے آپ مایوس نہیں ہوں گے ۔
ایک پودا ہے اس کے پتے بھی اس کام کے لئے مفید ہیں۔ میرے بھائی ندیم السلام نے بھی اس پودے کی بھی کمپنی باغ میں موجودگی کی تصدیق کی ہے ۔
ایک درخت کے بیج کو کن ڈوڈا کہتے ہیں بقول ندیم کن ڈوڈا دیوار یا فرش پر رگڑنے سے گرم ہو جاتا ہے اسکو گرم گرم احباب کی گردن پر لگایا جائے تو خاطر خواہ کُھرک اور جلن پیدا ہوتی ۔
ڈاکٹر ناشاد صاحب فرماتے ہیں ؛
کُھرک نِشاں پودا ہے درخت نہیں۔پھر یہ کہ اس کے پھل یا بیج سے نکلنے والے ریشے خارش کا سبب نہیں بنتے بلکہ اس کے ہرے کچور پتے خارش کا سبب بنتے ہیں۔ ہم دوستوں کے ہاتھ کی پشت یا گردن پر وہ پتا دہرا کر کے دو تین بار تیزی سے رگڑتے تھے اور مطلوبہ راحت حاصل کرتے تھے۔آپ نے جس طرح کا بیج دکھا یا ہے اس طرح کا پھل ایک بڑے درخت کے ساتھ لگتا تھا۔ چھلکے کے اندر کالے رنگ کا چھوٹے بنٹے کی طرح کا سخت بیج ہوتا تھا۔اسے ہم کن ڈوڈا کہتے تھے’ اس کن ڈوڈے کو ہموار زمین پر رگڑنے سے وہ بہت گرم ہو جاتا تھا وہ گرم کر کے بھی ہم دوستوں کی گردنوں کو داغا کرتے تھے اور لطف اٹھاتے تھے’ کبھی کبھار ہم بھی ہدف بن جاتے۔
گرلز سکول نمبر دو 1985 میں قائم ہوا اس کی کلاسیں عارضی طور پر ماڑی موڑ سے مدینہ مسجد جانے والی روڈ پر کرایے کی بلڈنگ میں شروع ہوئیں۔ بعد میں یہ کُھرک نِشاں پارک کمپنی باغ میں شفٹ ہوگیا ہماری باجی مرحومہ اس سکول میں 1985 ہی سے ٹیچر تھیں ۔
ماڑی موڑ والی بلڈنگ میں بعد میں فارسی بان افغان مہاجرین نے اپنا سکول کھولا تھا اس کا نام ایساری سکول تھا۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔