کیمپبلپور سے ملے خاروشتی نوادرات
آج ہم جس مقام پر ہیں جو وسائل ہمیں میسر ہیں آج سے پچاس یا سو سال پہلے ہمارے آبا و اجداد کو یہ وسائل میسر نہ تھے جدید گاڑیوں سے پہلے سادہ گاڑیاں تھیں اس سے پہلے تانگے تھے بیل گاڑیاں تھیں اس سے پہلے گھوڑے ، خچر اور اونٹ سواری کیلئے استعمال ہوتے تھے ، فریج نہیں تھے تو کھانے کی چیزیں ٹھنڈی رکھنے کیلئے زیر زمیں مٹی کے تہ خانے ہوتے تھے یا گھروں میں جالی والی الماریاں تھیں اور پانی ٹھنڈا کرنے کیلئے مشکیزے تھے ، بجلی کے بجائے پنکھے ہاتھ والے تھے ، روشنی کے بلب کے بجائے موم بتی تھی اور روشنی کیلئے لالٹین نما فانوس تھے ، آج سے نصف صدی قبل جب میرے والد محترم اس ملک سلطنت عُمان جہاں میں رہتا ہوں تشریف لائے تو اس وقت یہاں بجلی نہیں آئی تھی اور وہ مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹین کا استعمال کرتے تھے جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جو کہ نئی نسل کیلئے اور آنے والی نسلوں کیلئے ایک عجوبہ ہے اور ہوگی کہ ایسا بھی ہوتا تھا ! جی بالکل ایسا ہوتا تھا لیکن جب اس قسم کی باتیں یاداشتوں اور نوادرات کو محفوظ کر کے دکھایا جائے گا تب سمجھنے میں اور بھی آسانی ہوگی ۔ میری موجودہ رہائش مسقط شہر سے کم و بیش 50 کلومیٹر کے فاصلے پر کچھ علاقے ہیں جس میں ( الخوض ) کا علاقہ ہے یہاں ڈائنوسارز کی باقیات پائی گئی ہیں لیکن عام طور پر وہاں کے مقامی اور غیر ملکی رہائش پزیر اس بات سے ناواقف ہیں سوائے جو شغف رکھتے ہیں تحقیق اور مطالعہ کرتے ہیں ۔ آج سے ہزاروں لاکھوں سال قبل یہ علاقے ایسے نہ تھے یہاں مختلف قومیں آباد تھیں ان کی اپنی زبان اور تہذیب تھی عادات و اطوار تھے جو آج کے موجودہ دور سے بہت مختلف تھیں اور ان کا پتا ہمیں ان پر لکھی گئی کتابیں پڑھ کر یا عجائب گھر جانا ہو تو وہاں سے معلوم ہوتا ہے ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے عجائب گھر جہاں عجیب و غریب اشیاء ہوں جو عقل کو حیران کردیں جن کی معلومات سوچ کو حیران کردیں نظریے کو بدل دیں اور معلومات میں بیش بہاء اضافہ کر دیں ۔ مجھے بچپن سے ہی عجائب گھر جانے کا شوق ہے اور وہ اس طرح سے ہوا کہ والد محترم رحمۃ اللہ علیہ ڈائری لکھتے تھے اپنی یاداشتوں کو محفوظ کرتے تھے ، پرانے قصے سناتے تھے جو سب کچھ میری لئیے بہت دلچسپی کا باعث تھا اور جب پہلی مرتبہ عجائب گھر لے کر گئے تو وہاں سالوں پرانی حنوط کردہ کئی میٹر لمبی وھیل مچھلی کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا کہ اگر یہ یہاں محفوظ نہ کہ جاتی تو کبھی ہمیں اس کو دیکھنے کا نہ تو اتفاق ہوتا نہ ہی علم ہوتا یہاں سے مجھے پرانی چیزوں پر تحقیق اور نوادرات کو دیکھنے اور محفوظ رکھنے کا شوق ملا ۔
اس سلسلے میں گزشتہ سال یہاں کے مقامی عجائب گھر کو میں نے ایک پرانی دستاویز بھی فراہم کی جس کا ذکر مقامی اخبارات اور چینلز پر انٹریوز میں ہوا ۔ ( اس بارے مزید معلومات کیلئے مضمون کے آخر میں فراہم کردہ لنکس پر کلک کریں ) امید ہے آئندہ آنے والے زمانے اور نسلیں ان معلومات سے مستفید ہوں گی ۔ بچپن میں والد محترم رحمۃ اللہ علیہ کیساتھ کسی محفل میں ان سے سنا تھا کے وہ 1971 کی جنگ اور پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج کیمپبلپور میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے ساتھ ہی پارٹ ٹائم کالج کی لایبریری میں بطور اعزازی سیکریٹری رہے جس کے لائبریرین محترم غلام محمد نذر صابری صاحب تھے اور اس لائبریری میں مجلس نوادرات علمیہ قائم کی گئی جس کے وہ سرپرست بھی تھے تو ایک دن کسی مدرس کے ذریعے کالج انتظامیہ کو پیغام موصول ہوا کہ کامرہ گاؤں کے علاقے پنڈ سلیمان مکھن میں کسی کسان کی زمین سے نئی فصل کیلئے زمین تیار کرتے ہوئے تقریبا تین فٹ زیر زمین سے کچھ عجیب اور منفرد انداز کی اشیاء ملی ہیں جن میں ایک پتھر کی سیڑھی نما ہے اور ایک لمبے سے پتھر پر کچھ ایسے نقش نمایاں ہیں جیسے کوئی تحریر ہو اس کے علاوہ علاقہ چھچھ کے گاؤں گڑھی متنی سے بھی ایک پتھر ملا ہے جس پر ایسے ہی نقوش کندہ ہیں ان دونوں دریافتوں کا سہرہ ضلع کیمپبلپور کے سر آیا ۔ لہذا خبر پاکر گورنمنٹ کالج کیمپبلپور سے کچھ متعلقہ افراد بمع والد محترم کامرہ یہ چیزیں دیکھنے گئے جس میں سے پتھر کی بنی سیڑھی کسی مقامی زمیندار نے اپنے گھر یا حویلی میں ذاتی استعمال کیلئے لگوالی تھی البتہ وہ لمبوترا پتھر جس پر تحریر نقش تھی موجود تھا اسے محفوظ کرکے کالج منتقل کردیا گیا اور مجلس نوادرات علمیہ کے حوالے کرتے ہوئے لائبریری میں رکھ دیا گیا جہاں یہ پتھر کچھ عرصہ تک بمع دوسرا پتھر جو گڑھی متنی میں ایک ٹیلے کے پاس سے ملا تھا آرام اور سکون سے والد محترم کے زیر مطالعہ اور دیگر زائرین کی توجہ کا مرکز بنے رہے ۔ اس کے بعد کالج انتظامیہ نے قریبی عجائب گھر جو کے ٹیکسلا میں واقع تھا ان سے رابطہ کیا اور ٹیکسلا میوزیم سے 10 اپریل 1975 کو ماہرین کی ایک ٹیم جس میں معروف محقق کے۔ والٹن ڈوبنز اور ایم۔اے۔ حلیم جو کے ٹیکسلا میوزیم سے وابستہ تھے یہ دونوں صاحبان ان پتھروں کا جائزہ لینے آئے اس سے قبل ان کو ان پتھروں کی دریافت کا پتہ چل گیا تھا کیونکہ اس زمانے میں اس دریافت کا کافی چرچا تھا لہذا ان کی معلومات کیڈٹ کالج حسن ابدال سے پروفیسر ایم۔ ایچ۔ صدیقی ، اسلام آباد یونیورسٹی سے پروفیسر اے۔ ایچ۔ دانی اور گورنمنٹ کالج کیمپبلپور سے حامد علی شیخ صاحب نے بھی فراہم کی تھی اور جائزے کے بعد صدر مجلس نوادرات علمیہ غلام محمد نذر صابری صاحب نے کاغذی کاروائی کے بعد ان نوادرات کو ٹیکسلا میوزیم کے حوالے کردیا جو کے آج تک ان پتھروں کا مستقل مسکن ٹھرہے ۔ ان پتھروں کی اہمیت ان پر بنے نقش کی وجہ سے تھی جو کہ خاروشتی زبان میں تھی اور یہ زبان قبل از مسیح آریہ بادشاہ کے زمانے میں رائج تھی اور اس زمانے میں یہ خطہ گندھارا تہذیب کا گہوارہ تھا ( تاریخی حوالہ جات بمع نام مجھے اس موضوع پر لکھے گئے تاریخی ریکارڈ کی اونلائن کتب اور ویب سایٹ سے ملے ، کے۔ والٹن ڈوبنز کا گندھارا تہزیب بالخصوص خاروشتی اور برھمی رسم الخط پر وسیع تحقیق ہے ) ۔
والد محترم رحمۃ اللہ علیہ سے سنا پتھر کا اپنے گاؤں کامرہ سے ملنے اور گورنمنٹ کالج اٹک کی تحویل میں لینے کا واقع میرے ذہن میں محفوظ ہوگیا تھا اور جب بھی کبھی پاکستان جاتا تو اس پتھر کو والد محترم کیساتھ دیکھنے کا پلان بناتا لیکن کبھی موقع نہیں ملا کیونکہ میرے ان کے ہمراہ پاکستان کے سفر کم رہے ہیں جس میں دیگر مصروفیات گھیر لیتی تھیں اب ان کے وصال کے بعد میں نے تہیہ کیا کے اس مرتبہ ضرور جاؤں گا اور اچانک ایک دن فراغت پا کر اپنے چچازاد بھائی یاور اور محلے دار نعمان اور وحید کیساتھ پلان بنایا کے ٹیکسلا میوزیم چلتے ہیں وحید صاحب کام کی مصروفیت کیوجہ سے ساتھ نا چل سکے البتہ یاور اور نعمان راضی ہو گئے (اس مرتبہ نعمان اور وحید کے توسط سے مجھے اور یاور جو کے خود پاکستان سے باہر مقیم ہے کو کئی تاریخی مقامات پر جانے کا موقع ملا تو وہ ہمارے سالار ہوا کرتے تھے) سو ہم اس سفر کا مزہ بھر پور لینے کیلئے بجائے گاڑی پر جانے کے موٹر سائیکل پر روانہ ہو گئے سفر کے دوران ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی جس سے سفر کا لطف دوبالا ہو گیا تھا لیکن ہمیں راستے کی مسافت کا اندازہ نہیں تھا اور اتنا لمبا سفر وہ بھی موٹرساہیکل پر بہت دشوار گزار تھا لیکن ہم نے اسے تفریح کا حصہ جانا اور سفر کی تھکان اور چیلنجز سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جسمیں ایک مولوی نما بابا جی اپنی چھوٹی سے کار لئیے ہماری چھوٹی سی سکوٹر کے پیچھے ہو لئیے کے آپ تین اس موٹرسائیکل پر کیسے سفر کر رئے ہیں یہ خطرناک ہے آپ پیچھے بیٹھے نعمان کو میرے ساتھ بٹھا دیں جہاں آپ کہیں گے میں اتار دوں گا ان کی یہ پیشکش ہمیں مشکوک معلوم ہوئی لیکن ہم نے ان مولوی نما بابا جی کر شکریہ ادا کیا لیکن وہ بضد تھے اور نہ مانے اور کئی میل تک ہمارا پیچھا کرتے رہے کبھی دائیں طرف سے آتے کبھی بائیں طرف سے نمودار ہوتے اس پر ہمیں شک ہوا کہیں یہ نعمان کو اغوا نہ کر لیں اس لئیے یاور نے اپنی مہارت سے موٹر سائیکل کو جلیبی کیطرح دائیں بائیں بل دیتے ہوے راستہ بدل لیا اور یوں ہمارا اس پیچھا کرتی گاڑی سے جان چھوٹی اور ہم بالآخر ٹیکسلا پہنچ ہی گئے ، میوزیم کی عمارت بہت خوبصورت تھی دور سے لمبے اونچے سنبل کے درخت دکھائی دئیے صدر دروازے پر بوگن ولا کا بڑا سا سرخ پھولوں سے لدا ہوا درخت بہت دلفریب منظر پیش کر رہا تھا جیسے جھک کر آنے والوں کا خیر مقدم کر رہا ہو اس کے عقب میں ٹکٹ دفتر سے داخلے کے ٹکٹ خریدے اور عجائب گھر کے مین ہال جس کے دروازے پر سال 1928 لکھا ہوا تھا اس میں داخل ہو گئے اس دن سیاحوں کا رش بہت تھا اور میری نظریں عجائب گھر کے اس رکن کی تلاش میں تھیں جہاں گندھارا تہذیب کا آریہ اور اشوکا بادشاہوں کے زمانے کا خاروشتی تحریر والے نوادرات رکھے تھے جو کہ اندر داخل ہو کر دائیں ہاتھ پر جا کر بائیں ہاتھ کی الماری کے کونے میں رکھے ہوئے مل گے لیکن ان پر کہاں سے دریافت ہوئے یہ نہیں لکھا تھا خیر میں نے اپنی یاداشت کی مطابقت سے پہچان کر خوشی محسوس کی یاور اور نعمان کو بھی یہ خاروشتی تحریر والے پتھر دکھاے اور اس سفر اور یہاں تک آنے کا مقصد وہاں پہنچنے کے بعد انہیں بتایا اور اس طرح لگ بھگ تیس یا پینتیس سال پرانے قصے کو حقیقت میں بدلتے دیکھا اور میں کافی دیر تک ان نوادرات کو دیکھتا اور ان کے بارے پڑھتا رہا جو کبھی میرے والد محترم رحمتہ اللہ علیہ کے زیر مطالعہ رہے جیسے ان کیساتھ ایک رابطہ قاہم ہوگیا تھا آنکھیں نم تھیں اور دھندلکوں کے بیچ میں ان کے لمس کو تلاش کرتا رہا اور تصور میں ان کیساتھ سالوں پرانی اس محفل میں جا بیٹھا جہاں وہ اپنے مسحور کن انداز میں اس واقع کو بیان کر رہے تھے مزید میں اس مسحور کن کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔