کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگو تیلی
25 سال ہوئے پاکستان کو مارشل لاوُں سے آرام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری بی جمہوریت کی تاحال صحت بحال نہیں ہوئی ہے۔ پون صدی ہوئی لوگ تقریبا مارشل لاء کا نام تک بھول گئے تھے کہ یہ نظام حکومت کس چڑیا کا نام ہے۔ بھلا ہو جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کا، جنہوں نے اپنے ملک میں مارشل لاء لگا کر (گو کہ وہ چند گھنٹوں کا تھا) پاکستانیوں کو یاد دلایا کہ پاکستان میں بھی مارشل لاء نام کا کچھ حکومتیں ہوا کرتی تھیں۔ خیر پاکستان میں مارشل لاء نہ سہی مگر اسٹیبلشمنٹ عرف اپنی مقتدرہ تو آج بھی ہے جس کی اجازت کے بغیر ریاست میں حکومت تو کیا اپوزیشن کی چڑیا بھی پر تک نہیں مار سکتی ہے۔ پرانے مارشلاوں کی یاد میں عوام الناس گھلے جا رہے تھے اچھا ہوا کہ جنوبی کوریا کے صدر مملکت نے پاکستانی عوام کو بھی اپنے محبوب نظام حکومت کے قریب تر کر دیا۔ اپوزیشن کا بھی مقتدرہ کا اشارہ لیئے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ وہ تب تک گھوڑے بیچ کر سوئی رہتی ہے جب تک اسے مقتدرہ سے بلاوا نہ آ جائے۔ ہمارے ملک کی مقتدرہ بھی اتنی طاقتور ہے کہ جنوبی کوریا کی مقتدرہ اس کے سامنے رائی کے برابر بھی نہیں ہے۔ مقتدرہ سے مک مکا ہو جائے تو بی بی بشری جیل سے رہا ہو کر سیدھا "ڈی چوک” پہنچ جاتی ہے۔ مقتدرہ کوئی سیاست دان چھوٹا ہو یا بڑا ہو اسے اس کی اوقات کے مطابق ڈیل کرتی ہے۔ ڈی چوک پہنچنے سے پہلے شائد بشری بی بی نے بھی یہی سوچا ہو گا کہ جس نے میرا گھر اجاڑا میں بھی اس کی پارٹی کا ککھ نہیں چھوڑوں گی۔ پھر وہی ہوا بشری بی بی بتیاں بجھوا کر رات کے اندھیرے میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلی امین گنڈا پوری کے ساتھ گولیاں کھانے کے لیئے اپنے کارکنوں کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ گئی۔
پاکستان میں جنوبی کوریا میں مارشل لاء کی خبر سننے پر لوگوں کی جذباتی کیفیت دیدنی تھی۔ 3دسمبر بروز منگل کو جنوبی کوریا میں محض چند گھنٹوں کے لیئے مارشل لاء کیا لگا، خاص کر ہمارے متوسط طبقے کے کان کھڑے ہو گئے۔ پاکستانی شہریوں کی جنوبی کوریا میں ایسی اچھوتی دلچسپی کی بھی ایک خاص وجہ ہے۔ یہ جنوبی کوریا سیول اور انچھن کے شہروں والا ملک ہے جہاں ہزاروں لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں موجود ہیں۔ جہاں فی کس مزدور بھی 5 سے 10 لاکھ روپے کے برابر ماہانہ کماتا ہے اور جہاں جانے کے لیئے لوگ ایجنٹوں کو 30 سے 40 لاکھ روپے تک دینے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جس نے پاکستان میں 90ء کی دہائی میں ہنڈائی اور ڈائیوو کے زریعے "پیلی ٹیکسی” متعارف کروائی تھی۔ پاکستان اور جنوبی کوریا نے ایک سال کے وقفے سے سنہ 1947ء اور 1948ء سے آزادانہ طور پر ترقی کرنا شروع کی۔ اس عرصہ میں پاکستان نے صرف 4 اور جنوبی کوریا نے اب تک 19 فوجی و سویلین صدر اور 16 چھوٹے بڑے مارشل لا بھگتے ہیں۔ لیکن معاشی لحاظ سے ان دونوں ملکوں میں اتنا تفاوت ہے کہ اس انڈین محاورے کے مصداق کہ، "کہاں راجا بھوج اور کہاں کنگو تیلی”، اپنے احتساب کے حوالے سے پاکستانی ہونے پر ایک شرم سی محسوس ہوتی ہے۔
ایک اظہاریہ میں اس سے پہلے ذکر کیا تھا کہ جنوبی کوریا کے انچھن ایئرپورٹ پر پاکستان کے ایک سابقہ وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کی ایک قد آدم تصویر لگی ہوئی ہے۔ پاکستان میں جو پنج سالہ منصوبے بنتے رہے ہیں اس سے جنوبی کوریا نے مختلف ادوار میں بھرپور استفادہ کیا۔ جنوبی کوریا میں جتنے بھی سول اور فوجی اتار چڑھاؤ آئے، اس دوران جنوبی کوریا کی معاشی ترقی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جنوبی کورین عوام انتہائی احسان مند، محنتی، منظم اور محب وطن قوم ہیں جن کی ایمانداری اور اپنے کام سے لگن دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اتھل پتھل کے باوجود جنوبی کوریا پاکستان کے برعکس مسلسل معاشی ترقی کی راہ پر گامزن رہا ہے، اور آج جنوبی کوریا دنیا کی بارہویں اور ایشیاء کی چوتھی بڑی معیشت ہے جہاں فی کس آمدنی سنہ 1960ء میں محض 120 ڈالر تھی اور آج حیران کن حد تک 35000 ڈالر ہے۔ اس سوا پانچ کروڑ آبادی والے ملک کی معیشت کا حجم کم و بیش دو ٹریلین ڈالر ہے۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، 4 مارشل لاء تو ترکی میں بھی لگے مگر صدر رجب طیب اردوگان نے معاشی لحاظ سے ترکی کی تقدیر بدل دی۔ اس وقت موصوف جنوبی کورین صدر کو اپنی ہی اسمبلی میں مواخذے کا سامنا ہے اور اسے لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔ کہاں جنوبی کوریا و مقتدرہ اور کہاں ہماری عوام اور ہماری پاکستانی مقتدرہ، ہماری معاشی ترقی کا خواب جنوبی کوریا ہی کو دیکھ کر شرمندہ تعبیر ہونے سے رہا۔ شائد وہ ایسا چاہتے نہیں یا ہم ایسا ہونے نہیں دیتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں چند گھنٹوں بعد عوام نے پارلیمنٹ کا حفاظتی گھیراؤ کیا تو وہاں حالات پلٹ گئے۔ سپیکر نے پولیس اور فوج کو پارلیمنٹ کا احاطہ خالی کرنے کا حکم دیا۔ جنوبی کوریا کے 300 ارکان پر مشتمل ایوان نے 190 ووٹوں سے منظور کردہ قرار داد میں مارشل لا کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں پڑا۔
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول آخری خبریں آنے تک اقتدار میں تھے اور ان کی جماعت نے اعلان کیا تھا کہ وہ مواخذے کی تحریک کی متحد ہو کر مخالفت کرے گی۔ جنوبی کورین صدر سک یول کے اچانک مارشل لا کے نفاذ نے دنیا کو حیران و ششدر کر دیا تھا۔ خبر رساں ایجنسی "اے ایف پی” کی ایک رپورٹ کے مطابق صدر کے مواخذے کی تحریک پر ووٹنگ 7 دسمبر کو بروز ہفتہ شام 7 بجے ہو گی۔
جنوبی کوریا کی پولیس نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وہ یون سک یول کے خلاف "بغاوت” کے الزام میں تحقیقات کر رہی ہے جو کہ ایک ایسا جرم ہے جو صدارتی استثنیٰ سے تجاوز کرتا ہے اور اس میں صدر موصوف کو موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے 3 دسمبر منگل کی رات کو سویلین حکمرانی کو معطل کر دیا تھا اور پارلیمنٹ میں فوج اور ہیلی کاپٹر تعینات کئے تھے، تاکہ قانون ساز اس اقدام کو مسترد کر کے احتجاج اور ڈرامائی انداز میں انہیں "یو ٹرن” لینے پر مجبور نہ کر سکیں۔
سیئول کے اتحادیوں کو اس بات کا علم ٹیلی ویژن کے ذریعے ہوا تھا اور حزب اختلاف نے فوری طور پر مواخذے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر یون نے آئین اور قانون کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔
لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ خیبر پختون خواہ، کرم ایجنسی میں کشیدگی کے دوران لگ بھگ 300 افراد ہلاک ہو گئے، عام لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں، "بگن” ویران ہو چکا، بازار اور دکانیں جل کر راکھ ہو گئی ہیں، اور اب وہاں چائے کی پتی اور ڈسپرین کی گولی تک نہیں مل رہی ہے مگر وہاں کا وزیر اعلی صرف اپنے باس عمران خان کی رہائی کے لیئے ریاست پر چڑھائی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹا۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔