کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

مرزا اسد اللہ خان غالب کہتے ہیں ”رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل/جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے” پھر کہتے ہیں ”ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ/کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا”۔

مرزا غالب اردو اور فارسی ادب کے ایک عظیم شاعر تھے، جنہوں نے اپنی شاعری سے فارسی اور اردو زبان کو ایک نئی جہت دی۔ غالب کا کلام ان کے عمیق خیالات، انسانی نفسیات کی گہرائیوں اور زندگی کے فلسفے کا آئینہ دار ہے۔ ان کی شاعری میں عشق، فلسفہ، زندگی کے تضادات، اور انسانی جذبات کی مختلف کیفیات نہایت خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں۔ فاقہ مستی کے بارے میں غالب کہتے ہیں:

”قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن”

مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا عبد اللہ بیگ اور والدہ عزت النساء بیگم ترک مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ غالب نے بچپن میں فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی اور 11 سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا۔ ان کے پہلے استاد عبدالصمد ایرانی تھے جنہوں نے غالب کو فلسفہ، منطق، اور فارسی ادب کی تعلیم دی۔ مے خانہ اور واعظ کی بات یوں کرتے ہیں:

”کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے”

غالب نے ابتدا میں "اسد” تخلص اختیار کیا لیکن بعد میں "غالب” کے نام سے شہرت پائی۔ ان کے کلام میں فارسی اور اردو کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے جس نے اردو شاعری کو نیا آہنگ دیا۔ غالب کی شاعری میں جدت، تخیل کی بلندی اور تراکیب کی انفرادیت انہیں دیگر اردو اور فارسی شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ غالب اپنے دل کی بات یوں کرتے ہیں:

”کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا”

غالب کی شاعری میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کا گہرا مشاہدہ ملتا ہے جس میں عشق، فلسفہ، غم اور خوشی شامل ہیں۔ان کی شاعری میں عشق ایک مرکزی موضوع ہے، جو نہ صرف جسمانی محبت بلکہ روحانی تعلقات کو بھی بیان کرتا ہے۔ غالب کی شاعری میں زندگی، موت اور کائنات کے فلسفیانہ سوالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ غالب نے انسانی زندگی کے دکھ درد اور خوشیوں کو بڑی سادگی اور گہرائی سے بیان کیا ہے۔ غالب مشکلات کا زکر اس طرح کرتے ہیں:

”رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں”

غالب کو فارسی اور اردو ادب میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں جدت اور زبان کی خوبصورتی نے انہیں فارسی اور اردو ادب کا ایک ستون بنا دیا۔ غالب کی غزلیں ان کی انفرادیت اور تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین مظہر ہیں۔ ان کے خطوط بھی اردو نثر کے شاہکار مانے جاتے ہیں، جن میں ان کی شخصیت، خیالات اور زمانے کی جھلک نمایاں ہے۔

غالب فارسی کے ایک عظیم شاعر تھے اور ان کی فارسی شاعری میں فلسفیانہ اور عارفانہ موضوعات غالب ہیں۔

غالب کے خطوط اردو نثر کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان خطوط نے نثر کو ایک نیا اسلوب دیا۔

غالب نے سرسید احمد خان کی تصنیف "آئین اکبری” پر ایک فارسی تقریظ لکھی، جس میں انہوں نے جدیدیت اور ترقی کی اہمیت پر زور دیا۔

غالب ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر تھی اور انگریزوں کا اقتدار بڑھ رہا تھا۔ اس سیاسی اور سماجی تبدیلی نے غالب کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی شاعری اس دور کے المیے اور انسانی جذبات کی عکاس ہے۔

مرزا غالب 15 فروری 1869ء کو دہلی میں وفات پا گئے۔ ان کی رہائش گاہ "غالب کی حویلی” آج بھی ان کی یادگار کے طور پر موجود ہے۔ غالب کی شاعری آج بھی اردو اور فارسی ادب کے قارئین کے دلوں میں زندہ ہے۔

مرزا غالب کی شخصیت اور فن اردو ادب کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کی شاعری نہ صرف اردو زبان کی ترقی کا باعث بنی بلکہ انسانی جذبات اور فلسفے کو ایک نئی بلندی پر پہنچایا۔ غالب کا کلام آج بھی دلوں کو چھوتا ہے ۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

انجینئر اسماعیل کا نیک اور بے لوث فن تعمیر

ہفتہ دسمبر 28 , 2024
میں دو مقدس مساجد کے کاموں کے لئے کیوں معاوضہ لوں، میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا کیسے سامنا کروں گا۔
انجینئر اسماعیل کا نیک اور بے لوث فن تعمیر

مزید دلچسپ تحریریں