جزوِآئینہ


شاہد اعوان، بلاتامل

اے زمین و آسمان کے مالک! اے ضمیر انسانی کی پہنائیوں میں چھپے ہوئے سچے راہبرومرشد ! اے شر کی زبان د رازیوں پر خفیف سی سرزنش نہ کرنے والے! اے امر کن فیکون کے مالک! ذرا اپنی عظمت و شکوہ قدامت اور از بست و ابدیت کے رازوں سے تھوڑا سا حجاب تو سرکا دے۔۔۔ میری بے چین فطرت تجھ سے محبت کرتے کرتے اس مقام پر آگئی ہے کہ اب دید اور دیدار کے مابین تھوڑا ساحجاب بھی کہیں حواس کا اعتدال نہ رخصت کر دے ۔۔۔ کون ہے تو؟ تیرے چھپنے کاراز کیا ہے؟ تو اتنا کریم ہے کہ خودہی ان بندوں کے ہاتھوں اپنی خدائی اور نظامِ ربوبیت پر تنقید اور احتراز بھی سنتا رہتا ہے، اپنے مقامِ خدائی و کبریائی کو خود اپنے ہاتھوں امتحانِ آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ تیری یہ چہیتی مخلوق ’’حضرت انسان‘‘ تجھ پر اپنی ناقص عقل کے ڈورے ڈالتی ہے، اٹھکیلیاں کرتی ہے، اپنے ناقص مفروضات اپنے وہم و گمان کے جوش میں تیرے دامن پر ہاتھ ڈال دیتی ہے، روزانہ اربوں کھربوں انسان اور مخلوقات بولتے ہیں مگر تم نے ’’چپ‘‘ کی دبیز چادر اوڑھی ہوئی ہے۔۔۔ مگر تم نہ بھی بولو تمہاری یہ کائنات بولتی رہتی ہے جی ہاں کائنات کا بولنا ہی نقارۂ خدا ہے!
23سالہ خوبصورت نین و نقش کا مالک نوجوان اسد حیات حال ہی میں حج اکبر کی سعادت پا کر واپس لوٹا ہے اور میرے روبرو بڑی بڑی روشن آنکھوں سے اپنے حج کی روئیداد مجھے سنا رہا ہے اور بندہ فقیر اس لاابالی بچے کو بغور تکنے میں مصروف تھا۔ اسد حیات پیپلزپارٹی اٹک کے بانی رکن ، معروف معالج و سماجی شخصیت ڈاکٹر سکندر حیات کا پوتا اور پی پی پی ضلع اٹک کے صدر سردار اشعرحیات کا فرزند ارجمند ہے ۔ اللہ نے اسے جوانی میں اپنے گھرکی زیارت سے سرفراز فرمایا اور پہلی ہی بار حج اکبر بھی نصیب فرمایا۔ نوجوان اپنے حج پر جانے کی روئیداد سنانے لگا کہ شب2.30کا وقت تھا اور یہ وقت ہر روز اس خاندان کے دن بھر کے کاموں سے فراغت کے بعد سونے کا ہوتا ہے۔ اشعر حیات کے کاروباری مشاغل ، سیاسی جھمیلے و سماجی مصروفیات جبکہ ان کی شریک حیات بطور معالج دن بھر مریضوں کے ساتھ مشغول رہتی ہیں چنانچہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جو چند گھنٹے انہیں اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے ملتا ہے۔ اسد کی کبھی کوئی بات اس کے والدین نے نہیں ٹالی مگر اس روز اچانک وہ ایک انوکھی فرمائش کر بیٹھا کہ وہ انگلستان جانا چاہتا ہے ۔۔۔ والدہ چاہے پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ اپنے دل کے ٹکڑے کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں دیکھ سکتی ۔ سو فطرتاٌ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور ممتا نے اپنی دلی تمنا بیٹے کے آگے عجب انداز میں بیان کر دی کہ بیٹا، اس سال تم حج پر چلے جائو! اسد ایک لمحے کے لئے رکا وہ اس سے قبل عمرہ پر جانے سے کتراتا رہا تھا مگر اس بار اس کا جواب ہاں میں تھا۔ حج درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ سر پر تھی جلدی جلدی کاغذات لیے اور اپنے جاننے والے ڈاکٹر کے پاس بھیج دئیے ۔ ڈاکٹر موجود نہ تھا، ملازم نے کہا کہ وہ حج کاغذات ڈاکٹر عالیہ (اسد حیات کی پھپھو) سے تصدیق کیوں نہیں کرا لیتے۔ قدرت کے کام دیکھئے جب اسد کے کاغذات تصدیق کے لئے ڈاکٹر عالیہ کے پاس پہنچے تو ان کی آنکھیں عقیدت کے آنسوئوں سے بھر گئیں کہ وہ تو بیس سالوں سے اس مبارک سفر میں اپنے ’’محرم‘‘ کی منتظر تھیں۔ انہوں نے اسی لمحے اسد کو فون کیا اور کہا کہ اب تم اکیلے حج پر نہیں جائو گے ہم دونوں ساتھ جائیں گے۔ یوں پھپھو بھتیجا بن بلائے اس بارگاہ کے اچانک’’مہمان‘‘ بننے جا رہے تھے کہ چند روز قبل تک انہیں خود خبر نہ تھی اسی لئے تو کہتے ہیں کہ حج عمرے مال و دولت سے نہیں بلکہ ’’بلاوے‘‘ سے ہوتے ہیں۔ حج کی تیاریاں اور چشمِ تصور سے وہاں کے پرنور نظارے پھپھو بھتیجے اور خاندان کے لئے کسی طور عید سے کم نہ تھے، سب سے بڑھ کر اسد حیات کی دادی صاحبہ جو صاحبِ فراش ہیں اور جنہوں نے اپنا حج کعبہ اپنے بیمار شوہر کو بنا رکھا ہے وہ اپنی چہیتی بیٹی’ملکہ‘ اور پوتے اسد حیات کے حج پر جانے کے دن گن رہی تھیں اور دعائوں کے بنڈل باندھ باندھ کر ان کے عازمِ سفر کر رہی تھیں ۔ یوں یہ مختصر قافلہ حج کے سفر پر روانہ ہوا جن کی پہلی منزل مدینہ پاک ٹھہری، جب بھی کوئی پہلی بار ان مقدس مقامات پر حاضر ہوتا ہے اس کے لئے وہ کسی خزانے سے کم نہیں ہوتا گنبد خضریٰ کے نظارے ہوں یا مسجد نبویؐ کی عشق و عقیدت میں ڈوبی عبادات و ریاضات، سب کا الگ ہی لطف ہے۔ اسد حیات بتا رہا تھا کہ سخت پابندیوں کے باوجود کئی بار ان کی خواہش کے مطابق انہیں ریاض الجنہ میں نوافل اور نمازیں پڑھنے کے مواقع ملے، مدینہ سے مکہ کا سفر اور پھر پہلا عمرہ نصیب ہوا، مسجد عائشہ اور طائف سے بھی عمرے کرنے نصیب ہوئے، حج کے دنوں میں بھی جی بھر کے عبادات کیں اور سے بڑھ کر اسد کو غلافِ کعبہ کی سلائی کے دوران اس میں شامل ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔ یہ تمام سعادتیں اور اجازتیں اللہ اور اس کے حبیب پاکﷺ کے خاص کرم کانتیجہ ہیں یا پھر اسد کو اپنی والدہ صاحبہ کے حکم کی تعمیل کی وجہ سے یہ سب نصیب ہوا ۔ اسی طرح ڈاکٹر عالیہ نے بھی بیس سالوں کے ہجر وفراق کے دوران دل ہی دل میں جو دعائیں مانگ رکھی تھیں انہیں بالآخر اس کا ثمر خوب عطا ہوا۔ اللہ نے یہ کائنات اپنا حسن دیکھنے کے لئے بنائی ہے سو رب کائنات! انسان تیری مخلوق کا ایک جزو اور انسان جزوِ آئینہ ٹھہرا۔

Shahid-Bla-Ta-Amul

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

بساط پہ اک نظر

ہفتہ اگست 13 , 2022
فرہاد احمد فگار نے علم وادب کی بساط سجائی اور کچھ ایسے سجائی کہ جس کے مقدور بھر کھیلنے اور جیت جانے کا عزم اور یقین کامل دل میں راسخ بھی ہے اور محکم بھی
بساط پہ اک نظر

مزید دلچسپ تحریریں