تحریر : سعدیہ وحید
جدید نظم گو شاعر مجید امجد 29 جون 1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہوئے۔ بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کی اور محکمہ خوراک میں اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر کی حیثیت سے ساہیوال میں مقیم رہے۔ مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے‘ ان کی شاعری میں موضوعات کا بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ پھر ان کا شاعرانہ لہجہ بھی بڑا منفرد ہے جو ان کی شاعری میں بڑا حسن پیدا کرتا ہے۔ مجید امجد کا شمار علامہ اقبال کے بعد والی نسل میں فیض احمد فیض‘ میرا جی اور ن م راشد کے پائے کے شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں "شبِ رفتہ”‘ "شبِ رفتہ کے بعد”‘ "چراغِ طاق جاں”‘ "طاقِ ابد” اور "مرے خدا مرے دل” کے نام سرِفہرست ہیں۔ 1958ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ "شبِ رفتہ” کے نام سے شائع ھوا۔ جس پر بعض حلقوں کی طرف سے ایسا رد عمل آیا کہ مجید امجد اپنی باقی زندگی میں چاھنے کے باوجود بھی دوسرا مجموعہ شائع نہ کروا سکے ۔
گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ معاشی تنگ دستی نے الگ سے زندگی کو اجیرن بنائے رکھا۔ جون 1972ء میں ریٹائر ھوئے لیکن 11 مئی 1974ء میں ان کے وفات کے ایک ماہ پہلے تک ان کی پینشن جاری نہیں کی گئی ۔ نوبت فاقہ کشی تک آ گئی۔ اسی فاقہ کشی نے بیماریوں سے دوچار کر دیا اور ایک دن اسی کسمپرسی میں فرید ٹاون ساہیوال کے ایک کوارٹر میں مردہ پائے گئے ۔ ایک اخبار کی خبر کے مطابق بدبو پھیلنے پر ایک شخص نے کوارٹر کی کھڑکی سے جھانکا ۔ دو افراد دیوار پھاند کر اندر داخل ھوئے تو انھیں مردہ پایا گیا۔ آخری وقت میں جو دس بیس لوگ اکٹھے ھوئے ان میں کوئی بھی رشتہ دار نہ تھا ۔ مسئلہ میت کو ساھیوال سے جھنگ بھجوانے کا تھا۔ ایک بیوروکریٹ شاعر کو رحم آیا تو اس نے ایک ٹرک کا بندوبست کیا اس پر میت رکھ کر جھنگ بھجوائی گئی۔ ان کی وفات کے دو سال بعد دوسرا مجموعہ "شب رفتہ کے بعد” شائع ہوا۔ باقی مجموعے
"چراغ ِ طاق جہاں” ، "طاق ِ ابد” اور "مرے خدا مرے دل”
بھی بعد میں شائع ہوئے۔ ڈاکٹر خواجہ زکریا نے 1979ء میں "کلیات ِ مجید امجد” میں ان کا سارا کلام اکٹھا کر کے شائع کروایا۔
مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ ایک لمحہ جو یاروں کے درمیاں گزرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں چار سو ترا غم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے سلیقے سے دنیا نے میرے دل کو دیے
وہ گھاؤ جن میں تھا سچائیوں کا چرکا بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
۔۔۔۔۔۔۔
ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہئے
صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگہ اٹھی تو زمانے کے سامنے ترا روپ
پلک جھکی تو مرے دل کے روبرو ترا غم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں روز ادھر سے گزرتا ھوں کون دیکھتا ھے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
۔۔۔۔۔۔۔
پھر جب وقت بُجھا تو اِن پلکوں کے تلے
بہتے بہتے تھم گئی ندیا ، دُنیا کی ۔۔۔۔۔ !!
دُنیا کے ٹھکرائے ھوُئے لوگوں کا کام
پہروں بیٹھے باتیں کرنا، دُنیا کی ۔۔۔ !!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول
اُفق اُفق پہ زمانوں کی دُھند سے اُبھرے
طُیور، نغمے، ندی،تتلیاں، گلاب کے پھول
کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گل بہ قباۓ جہاں گلاب کے پھول
یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ رداۓ بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول
کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئی بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول
خیالِ یار ! ترے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمالِ یار ! تری جھلکیاں گلاب کے پھول
مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول
سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں گلاب کے پھول
یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔