سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن رولز
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
سپریم کورٹ آف پاکستان نے حال ہی میں ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن رولز کا ایک ابتدائی مسودہ جاری کیا ہے، جس کا مقصد عدالتی نظام میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانا ہے۔ یہ مسودہ عوامی رائے کے لیے ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا گیا ہے، جو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں ججز کی تعیناتی ہمیشہ سے ایک حساس اور اہم معاملہ رہا ہے۔ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کو بنیادی حیثیت دی گئی تھی لیکن عملی طور پر مختلف ادوار میں عدلیہ پر دباؤ اور سیاسی اثر و رسوخ کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔
2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد ججز کی تعیناتی کے عمل کو شفاف اور میرٹ پر مبنی بنانا تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان رولز میں خامیاں اور پیچیدگیاں نمایاں ہوئیں جنہیں دور کرنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت محسوس کی گئی۔
سپریم کورٹ کے حالیہ مسودے میں کئی اہم نکات شامل کیے گئے ہیں، جو عدالتی نظام کی بہتری کی جانب ایک اہم قدم ہیں:
مسودے کے مطابق ججز کی تعیناتی میں میرٹ کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ میرٹ کے معیار میں امیدوار کی پیشہ ورانہ قابلیت، قانون پر عبور، اور انصاف کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔
امیدوار کی ساکھ اور دباؤ سے آزاد ہونے کی شرط کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو عدلیہ کی آزادی کے لیے ناگزیر ہے۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ ججز کی نامزدگی میں وکلاء اور سیشن ججز کی مناسب نمائندگی ہونی چاہیے۔ مزید برآں سپریم کورٹ میں تمام ہائی کورٹس کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں تعیناتی ہائی کورٹس کے پانچ سینئر ترین ججز میں سے ہونی چاہیے جبکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری تین سینئر ترین ججز میں سے ہوگی۔ یہ اصول عدلیہ میں سینئرٹی کے روایتی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔
ججز کے لیے نامزد امیدواروں کو فوجداری، سول، فیملی، اور دیگر مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔ سالانہ ٹیکس ادائیگی کی تفصیل بھی ظاہر کرنا ہوگی۔ کسی بھی امیدوار کے لیے براہ راست یا بالواسطہ کسی رکن سے رابطہ کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں تمام ناموں پر غور کے بعد ووٹنگ کا عمل شروع ہوگا جو شفافیت کو یقینی بنانے کی ایک اہم شق ہے۔
اس مسودے میں شامل میرٹ اور شفافیت کے اصول عدالتی آزادی کو مزید مضبوط کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کا عملی نفاذ اہم ہوگا کیونکہ ماضی میں عدلیہ پر دباؤ اور سیاسی مداخلت کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔
ہائی کورٹس اور وکلاء کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنانے کی شق مختلف قانونی برادریوں کے اعتماد کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
امیدواروں کی مالی تفصیلات اور مقدمات کی تفصیلات ظاہر کرنے کا اصول شفافیت کو یقینی بناتا ہے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ معلومات عوامی سطح پر بھی دستیاب ہوں گی یا صرف جوڈیشل کمیشن تک محدود رہیں گی۔
سینئرٹی کے اصول پر عمل درآمد کے دوران مختلف عدالتی حلقوں میں اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں، جیسا کہ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے۔
یہ مسودہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اس مسودے کو عملی جامہ پہنایا گیا تو یہ عدالتی نظام میں اصلاحات کا سنگ بنیاد ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا بلکہ عوام کا عدالتی نظام پر اعتماد بھی بحال ہوگا۔
سپریم کورٹ کا یہ اقدام پاکستان کے عدالتی نظام میں شفافیت اور میرٹ کو فروغ دینے کی ایک اہم کوشش ہے۔ تاہم اس مسودے کے عملی نفاذ کے لیے عدالتی اور سیاسی حلقوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اگر یہ مسودہ کامیابی سے نافذ ہو جاتا ہے تو یہ پاکستان کے عدالتی نظام کو مضبوط کرنے اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔