اگلے دن 19 جنوری بروز منگل صبح ملتان کے لیے روانہ ہوئے ایک مرتبہ پھر اوچ شریف انٹرچینج تک ہیڈ پنجند کو کراس کرنا اور پھر اسی اذیت سے گزرنا پڑا، موٹر وے سے اتر کر ملتان شہر میں داخل ہوتے ہی سب سے زیادہ بلندی پر شاہ سید رُکنُ الدین رُکنِ عالم رحمۃاللہ علیہ کے مزار پر نظر پڑتی ہے، تیرہویں صدی عیسوی کے عمارتی شاہکار کو دیکھ کر آج بھی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، سوچ دنگ رہ جاتی ہے، اس سے کچھ فاصلے پر حضرت شیخ بہاؤالدین ذکریا رحمۃاللہ علیہ کا مزار ہے ، خوبصورت طرزِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے ؛ اور پھر اس سے کچھ فاصلے پر سلطان العارفین حضرت شاہ شمس تبریز ابنِ علاؤالدین رحمۃاللہ علیہ کا مرقد ہے اور اسی روضہءِ اقدس کے احاطے میں علامہ ناصر عباس شہید کی قبر بھی ہے اور اس کے علاوہ نامی بزرگ شخصیت حضرت یوسف شاہ گردیزی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بھی موجود ہے، یہ سب صاحبانِ کرامت اور مستجاب الدعوات بزرگ شخصیات تھے کہ جن کے دستِ حق پرست پر بےشمار غیر مسلم دائرہءِ نُور ِ اسلام میں داخل ہوئے اس کے علاوہ شاہ حسین درگاہی کے دربار پر بھی حاضری دی، فاتحہ خوانی کی اور رات گئے تک جتنا ممکن تھا ملاقاتیں کیں اور پھر واپس علی پور آدھی رات کو پہنچے
اگلے دن یعنی 20 جنوری بروز بدھ ہم نے ڈیرہ غازی خان جانا تھا اور جاتے ہوئے تحصیل جتوئی کے مرکزی شہر سے میرے قُم ایران کے دوست جو کہ میرے کلاس اور روم فیلو بھی تھے ان کو ساتھ لینا تھا، ہماری 36 سال کے بعد ملاقات ہوئی ، علامہ مومن حسین قُمی صاحب اور مولانا منتظر مہدی جتوئی صاحب نے ڈیرہ غازی خان میں ایک مجلس سے خطاب کرنا تھا، اور میں نے اپنے پیارے دوست، باکمال خطیب لاجواب شاعر سید مُحسؔن نقوی شہید سے ملنے کربلا ڈیرہ غازی خان جانا تھا، کیا ہی بے مثل و بے نظیر شخصیت تھے جسم میں 45 گولیاں پیوست تھیں مگر ایمبولینس یہ آخری چار مصرعے پڑھے
لے زندگی کا خُمس علی کے غُلام سے
اے موت آ ضرور مگر احترام سے
عاشق ہوں گر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے
شکوہ کروں گا تیرا میں اپنے امام سے
بہت دیر تک شہید کے پاس بیٹھا لاہور اور اٹک کی ملاقاتوں کو یاد کیا اور دعاؤں کے ساتھ رخصت ہوا ، ہم شام کو ڈیرہ غازی خان سے نکلے راستے میں مولانا منتظر مہدی جتوئی کے بےحد اصرار پر کچھ دیر ان کے گھر پر رکے اور چائے پی، اور رات 9 بجے واپس علی پور پہنچے ۔
اگلے دن یعنی 21 جنوری کو صبح اسلام آباد کے لئے روانہ ہونے سے پہلے قبلہ علامہ مومن حسین قُمی صاحب کے خواتین کے لئے زیرِ تعمیر مدرسہ جامعہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا دیکھنے گئے کیا ہی خُوبصُورت اور شاندار وسیع و عریض عمارت بن رہی ہے میرے لیے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ مدرسہ میں دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جا رہی ہے کمپیوٹر لیب بھی موجود ہے مدرسہ کی سات بچیاں ماسٹرز کر چکی ہیں اور ڈاکٹریٹ کی تیاری بھی کروائی جا رہی ہے، اللہ تعالیٰ قبلہ کی توفیقاتِ خیر میں اضافہ عطا فرمائے اور جلد تکمیل کے لیے وسائل میسر ہوں، آمین اور اس کے بعد ایک ایسے مقام پر گئے جہاں بڑا روحانی سکون ملا اس جگہ کا نام بین الحرمین رکھا گیا ہے بالکل اسی طرز پر مولا غازی عباس علمدار علیہ السلام کے روضے کی شبیہ تیار ہو چکی ہے،
اور مولا اِمامِ حسین علیہ السلام کے روضے کی شبیہ کی تعمیر کا کام جاری ہے، مالک اس کام میں حصہ لینے والوں کی توفیقاتِ خیر میں اضافہ عطا فرمائے، آمین ثم آمین، اور آخر میں علی پور ضلع مظفر گڑھ میں پہلے علمی مرکز جامعۃ الھُدی محمدیہ میں گئے مدرسہ کے بانی مؤحد اور عظیم عالمِ دین اُستاذُالعلماءِ والمجتھدین قبلہ علامہ حافظ یار محمد شاہ صاحب قبلہ کی مرقدِ انور پر حاضری دی، قبلہ کے دائیں بائیں اُن کے دو فرزند علامہ حافظ سید سبطین علی شاہ اور علامہ حافظ ثقلین علی شاہ صاحب ابدی نیند سو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سمیت تمام علماءِ حق کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی منازل قبر و حشر کو آسان فرمائے آمین، اور پھر ہم اسلام کے لیئے روانہ ہوگئے اور شام 7:30 بجے مولانا کے گھر پہنچ گئے، رات کو آرام کیا اور 22 جنوری بروز جمعہ دن 2 بجے اٹک اپنے گھر پہنچے ، اس علمی اور تحقیقی سفر میں اگر قبلہ علامہ مومن حسین قُمی صاحب کا پر خلوص تعاون نہ ہوتا تو یہ سب کچھ ممکن نہ تھا، قبلہ کی محبت اور بہترین مہمان نوازی میری زندگی کا بہترین سرمایہ ہے
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔