جن، مستری اور شہتیر

جن، مستری اور شہتیر

1970 سے پہلے زمانہ سپیشلائیزیشن کا نہیں تھا۔ مستری نام کی ڈگری سے ایک ہی بندہ بیک وقت بطور لوہار( Black Smith)… ترکھان( Carpenter)اور
راج ( Mason ) کام کرتا تھا۔ ملہووالا کے مستری صاحبان کی اصل ذمہ داری ، کاشتکاری کے آلات ( ھل ، داتری، کھرپہ) بنانا اور ان کی مرمت کرنا تھی ۔مکان بنانے اور اس کی مرمت میں مقامی ہنرمند حضرات صرف فرسٹ ایڈ بہم پہنچاتے

مکانوں کی تعمیر کے لیے ہمارا واسطہ مصطفے و سخی ہر نو چ اور گنڈاکس کے بابا میاں محمد اور ان کے بیٹے حسین سے تھا ۔ان حضرات کے لمبے لمبے عرصے کے لئے کام اور قیام کی وجہ سے فیملی تعلقات بن گئے تھے ۔تعمیر میں لکڑی اور میسن کا کام دونوں ان کے ذمے تھے ۔لکڑی مقامی ہوتی۔ درخت کاٹنے کے بعد اس کے مناسب سائز کے بڑے ٹکڑے کئے جاتے ۔پھر زمین میں چھ فٹ گہرا کھڈا کھود کر یہ ٹکڑے اس میں دبا دیے جاتے ۔ مناسب وقت پر لکڑی کو زمین سے نکالا جاتا،یہ عمل Seasoning کہلاتا تھا۔ اس سے لکڑی پکی ہو جاتی۔

جن، مستری اور شہتیر

مشینی آرا (Saw) 1967 کے بعد نیلہ (چکوال) میں لگا ۔اس سے دستی آرے سے لکڑی کی چرائی کی جاتی تھی ۔لکڑی کوسپورٹ دے کر ترچھا کھڑا کیا جاتا۔ پھر اس پر نشان لگایا جاتا۔ بابے نیک کی آٹا مشین کا جلا ہوا کالا تیل ۔ سوتر بھگو کر نشان لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔اس کے بعد دو بندے آرا چلاتے تھے ۔ آری سے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر ان کو تیسے سے شکل دی جاتی ۔پھر رندہ لگا کر سطح ہموار کی جاتی تھی ۔ ایک فقرہ یاد آگیا ۔
I saw a saw which could not saw
چھت کے لیے سب سے اچھا میٹریل اچھی نسل کی کڑی ( شہتیر) ،نفیس بالے اور ٹائلیں تھا۔شہتیر پر عمدہ انگریونگ نقش نگاری کی جاتی تھی ۔ مارچ 1947 میں گنڈاکس میں ہندو کش فسادات ہوئے۔ سامان لوٹا گیا۔گھر گرا کر بلڈنگ میٹیریل غائب کردیا گیا۔شہتیر بڑی چیز ہونے کی وجہ سے بادل ناخواستِہ چھوڑ دیے گئے ۔ شہتیروں کو حالات درست ہونے پر گورنمنٹ نے نیلام کر دیا۔ نانا جی نے دو شہتیر آکشن میں خریدے ۔ ان سے 1950 میں اباجی کا کمرہ نواں اندر بنوایا گیا۔ ستر سال ان کی آب و تاب میں فرق نہیں آیا۔
کم خرچے والے مکان میں سادہ سا شہتیر جس کی صرف ایک خوبی ہو کہ وہ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک پہنچ جائے ۔اس کی شکل صورت کی خاص اہمیت نہیں ۔ اس کے بعد بجائے فیشنی بالے ڈالنے کے ورگے استعمال ہوتے تھے۔ اس کے اوپر نڑ ،یا ،کانے سب سے اوپر مٹی کی تہہ ڈال کر پرنالے کی طے شدہ پوزیشن کی طرف ڈھلوان بنائی جاتی۔
گاڈر ( Girder اور ٹی۔آئرن ( T- Iron) کا استعمال بعد میں شروع ہوا
کمرے کا سٹرکچر بن گیا اب اس میں درواز ے اور باریاں ( Windows) لگائی جاتیں۔ اندر پلستر ہوتا اور باہر ٹِیپ ہوتی۔ فتح جنگ میں چاچے مشتاق صاحب کے جاننے والے مستری کے بیٹے نے میٹرک کیا۔ مستری صاحب نے چاچا جی سے کہا کہ میرا بیٹا نوکر کرا دو۔چاچا جی نے کہا کہ بیٹا ٹائپ Type سیکھ لے تو نوکری ملنا آسان ہو گا ۔ مستری صاحب نے فرمایا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں میں خود اس کو ٹِیپ Teep کرنا سکھا دوں گا

ٹِیپ Teep کا کام شروع ہوتے ہوتے گھر والوں کی جیب ہلکی ہو چکی ہوتی ۔ دو وقت مستری صاحبان کے لئے پرتکلف کھانا پکا پکا کر مستورات بھی تھک اور اَک جاتیں اب دعائیں شروع ہوجاتیں ۔ یا اللہ ان مستری حضرات سے جلدی نجات دلا۔ گھر سے جن اور مستری نکالنا دونوں مشکل کام ہیں۔اس میں علما کا اختلاف ہے کہ زیادہ مشکل کام کون سا ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

14فروری اور بہن نسیم جنجوعہ

جمعرات فروری 23 , 2023
14فروری کا تصور موجودہ صدی میں نوجوان نسل نے کیا لے رکھا ہے اور وہ اس دن کو کس انداز سے مناتے ہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔
14فروری اور بہن نسیم جنجوعہ

مزید دلچسپ تحریریں