جہاد فلسطین اور زمین
کالم نگار:۔ سید حبدار قائم
پارہ نمبر 17 آیت نمبر 78 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
ترجمہ
” اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا اس (کی راہ) میں جہاد کرنے کا حق ہے۔اس نے تمہیں منتخب فرمایا اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی جیسے تمہارے باپ ابراہیم کے دین (میں کوئی تنگی نہ تھی)۔ اس نے پہلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلمان رکھا ہے تاکہ رسول تم پر نگہبان و گواہ ہو اور تم دوسرے لوگوں پر گواہ ہوجاؤ تو نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو”
اللہ رب العزت اور اس کے پاک حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہم پر واجب کر دی گئی ہے اب ہم نے اسلام کا ہر حکم ماننا ہے اگر نہیں مانیں گے تو ہم مجرم ٹھہریں گے اور مجرم کو سزا ملے گی۔
آیت کریمہ میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے جہاد لفظ جہد سے نکلا ہے جس کے معنی کوشش کرنے کے ہیں جہاد کی بہت ساری اقسام ہیں اب کس جہاد کی ضرورت ہےیہ وقت بتاتا رہتا ہے ان دنوں میں سارا کفر فلسطینی بچے مارنے پر راضی ہے اسرائیل نے فلسطین پر اتنا بارود گرایا ہے کہ جہاں فلسطینی مارے گۓ ہیں وہاں غزہ کا ذرہ ذرہ زخمی ہے اور اس سے لہو ٹپک رہا ہے مسلمانوں نے نہ تلوار اٹھائی نہ ہی امداد بھیجی جن ملکوں نے امداد بھیجی ان کی امداد مسلمانوں تک نہ پہنچنے دی گئی امریکہ اپنی امداد بہم پہنچا رہا ہے اور یہ امداد فوجیوں کی شکل میں بھی ہے اور سامان حرب وضرب کی صورت میں بھی ہے۔
اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ امداد مسلمان ملکوں سے گزر کر جاتی ہے پتہ نہیں ان ممالک کی غیرت کیوں مر گئی ہے جو اس امداد کو روکتے نہیں ہیں۔
مندرجہ بالا آیت میں جہاد کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کی نگہبانی کے لیے اللہ رب العزت نے سردار الانبیا کو مقرر فرما دیا ہے جب حضور ہمارے نگہبان ہیں تو پھر ڈر کیسا ؟ آپ یقین کیجیے کہ مٹھی بھر حماس بنا خوف و خطر لڑ رہے ہیں اور اسرائیل کی چیخیں نکل رہی ہیں اسرائیلی صدر خوف کی وجہ سے ایٹم بم کی دھمکی دے رہا ہے لیکن جہاں غیرت ہو وہاں لوگ اٹم بم سے نہیں ڈرتے چاہے ایٹم چل جاۓ اور جان چلی جاۓ کیونکہ
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ہم ہر سال سنتے ہیں کہ اوزون کی سطح آلودگی کی وجہ سےٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے درخت لگائیں اور زیادہ دھواں دینے والی گاڑیوں پر پابندی لگاٸیں اور سال میں ایک دو بار کچھ وقت کے لیے روشنی بند کر دیتے ہیں اور برقی قمقمے بجھا دیے جاتے ہیں پوری دنیا میں آلودگی کے خلاف سیمینار کیے جاتے ہیں اس لیے کہ ماحول اور گلوبل ویلج کو آلودگی سے ہونے والے خطرات سے بچایا جا سکے یہ سارا ٹوپی ڈرامہ ہے یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اسرائیل نے ٹنوں کے حساب سے اسی زمین پر بارود برسایا ہے عمارات کھنڈر کی صورت اختیار کر گٸیں ہیں اور اس گلوبل ویلج کا دکھ کسی پاکستانی کو ہوا ہے نہ کسی اور ملک کو کیونکہ قول و فعل میں تضاد ہر قوم میں پایا جاتا ہے لیکن ہم اس میں بھی ٹاپ پر ہیں کسی نے فلسطین میں پھیلائی جانے والی اسرائیلی آلودگی کو چیلنج نہیں کیا ۔
بات چل رہی تھی فلسطین کے جہاد کی تو عرض یہ ہے کہ تمام مسلمان حاکموں نے ابھی تک دم دباٸ ہوٸ ہے اور اللہ کا حکم ماننے سے انکار کیا ہوا ہے مظلوم بیٹیاں اور نہتے بیٹے بلا رہے ہیں لیکن امت کھا کر ڈکار بھی اس لیے نہیں مار رہی کہ کہیں امریکہ یہ نہ کہہ دے کہ فلاں ملک سے اسرائیل پر گولی چلی ہے۔
واہ مسلمانو واہ!تم نے تو حد کر دی ہے نہ مال سے جہاد کر رہے ہو نہ تلوار سے نہ مال لگا رہے ہو نہ زبانی کہہ رہے ہو کہ یہ فلسطین پر ظلم ہو رہا ہے یاد رکھو اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے جب چل گئی تو پھر چھپ نہ سکو گے جہاد پر نگہبان حضور ﷺ ہیں جس نے جہاد کیا اس کی بھی اللہ کے دربار میں آقا پاک گواہی دیں گے اور جس نے جہاد نہیں کیا اس کی بھی حضور گواہی دیں گے اور جس کے خلاف گواہی حضورﷺ نے دی اس کو کوئی شخص نہیں بچا سکے گا اس کے بعد جہاد کرنے والے اور نہ کرنے والے کے ہم گواہ بن جائیں گے۔
اس آیت میں گواہی کےبعد نماز اور زکواة کے قائم کرنے کا حکم ہے لیکن اس کے بعد فوری طور پر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے اللہ کی رسی تھامنے سے مراد بھی آپس میں ایک دوسرے سے اتفاق رکھنا ہے اور ایک دوسرے کے درد بانٹنا ہے۔
جہاد فلسطین اور زمین ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ صیہونیوں کے ظلم کو سختی سے روک کر امن کے دیپ جلاۓ جائیں۔
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔