جانِ کرم
تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قائم
مجھے عشق و وارفتگی میں ڈھلے فن پاروں کا عکسِ جمیل جب جانِ کرم میں نظر آیا تو لکھنے کے لیے اپنا خامہ تھام لیا۔ محمد احمد زاہد سے میری ملاقات فیس بک پر ہوئی تو محبتوں کا سلسلہ آگے بڑھا کیونکہ اس کی وجہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا تھی فیس بک پر ہم دونوں ادبی تنظیموں کے دیے ہوئے طرح مصرع پر مشقِ سخن کرتے اور آگے بڑھتے رہے آج مجھے محمد احمد زاہد کی تیسری کتاب موصول ہوئی تو دل باغ باغ ہو گیا کیونکہ محمد احمد زاہد کی محبتیں اور کاوشیں دیکھ کر لوگ انہیں شاعرِ اخلاص کہتے ہیں۔ اور ان کا نصب العین ہی مدحت نگاری اور اس سے عشق ہے
محمد احمد زاہد کی کتاب "جانِ کرم” کا میں نے مطالعہ کیا جس میں مجھے کئی جگہ پر تلمیحات اور تشبیہات نظر آئیں جو کہ ان کی شاعری کا حسن بڑھا رہی ہیں کتاب میں سلاست اور بلاغت بھی درِ رسول ﷺ پر دستک دیتی ہوٸی نظر آتی ہے میرے خیال میں یہ شاعر کی دن رات محنت اور عشقِ رسول ﷺ کا ثمر ہے محمد احمد زاہد کی فکری عفت انہیں کئی شعرا سے ممتاز کرتی ہے کوٸی ایسا شعر نہیں جو قاری کی سمجھ میں نہ آٸے کیونکہ محمد احمد زاہد نے سہل ممتنع کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اس بار آپ نے بہت اچھی ردیفوں کا استعمال کر کے انہیں بہترین انداز اور سلیقے سے برتا ہے نعت گوئی حضور ﷺ کے عشق کے بغیر نہیں ہو سکتی اور یہ عشق جناب زاہد پر خدا کا خاص کرم ہے
"جانِ کرم” میں بہت معتبر شخصیات کی رائے بھی شامل ہے جو بہت اہم ہے کیونکہ محمد احمد زاہد کے ہاں تصنع اور تکلف بالکل نہیں ہے جیسا دل میں محسوس کرتے ہیں ویسا رقم کرتے ہیں مدینہ اور اس کر گرد و نواح جہاں حضور ﷺ کے قدمین شریفین آٸے ان ذروں تک کی تابانی زاہد کی فکر و نظر کو تاباں کرتی ہے حضور اکرم ﷺ کا حکم سورج چاند ستاروں درختوں اور جانوروں تک کا ماننا بھی اس کتاب میں اشعار کی زینت بنا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت کا محمد احمد زاہد وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔
محمد احمد زاہد کے نگار خانہ ٕ شعر میں ڈھلے فن پاروں کا عکس ہائے جمیل ان فرخندہ بخت اشعار میں ملاحظہ کیجیے:۔
عشقِ احمد ﷺ کو حرزِ جاں رکھنا
زیست کی بس یہی کمائی ہے
نعتِ نبی ﷺ سے قبل کوئی جانتا نہ تھا
صد شکر ہاتھ میں ہے قلمدانِ التفات
یادِ نبی ﷺ سے دل کے اجڑے چمن بسا لو
کچھ بھی نہیں ہے رکھا ویران زندگی میں
کوئی نہیں ہے آپ کے جیسا مرے نبی ﷺ
سرکار آپ ﷺ ہی تو ہیں مختارِ دو جہاں
طیبہ میں بٹ رہی ہیں ردائیں نجات کی
اپنے بدن پہ کیوں نہ انہیں اوڑھنے چلیں
اس در کی دھول میں بھی بہاروں کی شان ہے
قدموں کی خاک ہم بھی ذرا چومنے چلیں
پڑھ کے قرآن دیکھ لو زاہد
ان ﷺ کا چرچا کہاں ہوا نہیں ہے
خواب میں دید آپ ﷺ کی ہو مجھے
عرض میری شاہِ امم ﷺ سے ہے
ان ﷺ کے کرم سے ہوۓ مسلمان ضو فشاں
ان ﷺ کی عطا سے نور کی برہان زندگی
شمس و قمر بھی مانتے ہیں حکمِ مصطفٰی ﷺ
ایسے بھی معجزے ہیں دکھاۓ حضور ﷺ نے
سورج کی واپسی نے دکھایا یہ معجزہ
آفاق پر کمال تھی قدرت حضور ﷺ کی
پھر مدینے میں بلا لیں یا نبی ﷺ
اب تو بچے بھی بہت بے تاب ہیں
دو ٹکڑے فلک پر نہ کبھی چاند یہ ہوتا
گر آپ کے اس کو وہ اشارے نہیں ہوتے
حضور پاک ﷺ کی چوکھٹ کا بس گدا بن جا
پھر اس کے بعد جہاں میں سکندری کر لے
ثناۓ احمدِ مرسل کی آرزو رکھنا
لبوں کو اسمِ محمد ﷺ سے مشک بو رکھنا
ترے سخن کو ملے اذن جب کبھی زاہد
حصارِ فکر کو اس وقت باوضو رکھنا
نوکِ نیزہ پر سرِ اقدس ہے پھر بھی دیکھیے
جھوم کر قرآن کی آیت سناتے حسینؑ
خدا نے بخشی ہے عزت کچھ اس طرح ان کو
زمیں حسینؑ کی آسماں حسینؑ کا ہے
آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت محمد احمد زاہد کی آگہی اور عزت میں مزید اضافہ فرماۓ۔آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔