اسلامیہ یونیورسٹی سکینڈل اور قانون کی بالادستی!
ایک وہ ہیں کہ نیدرلینڈز کی ایک خاتون نے اپنے 8 سالہ بیٹے کی ڈارک ویب کے ذریعے اے کے 47 رائفل خریدنے کے جرم کو خود پولیس میں رپورٹ کیا، اور ایک ہم ہیں کہ ہمارے ایک وفاقی وزیر اپنے جواں سالہ بیٹے کو بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کے سکینڈل میں بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ باربرا جیمن نامی خاتون نیدرلینڈز میں ہیومن ریسورسز ایکسپرٹ ہیں، جنہوں نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ان کا بیٹا کم عمری میں ہی سائبر جرم کا مرتکب ہوا۔ خاتون کا موقف تھا کہ اس نے مقامی پولیس کے دفتر جا کر رائفل ان کے حوالے کر دی مگر پولیس نے بچے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اسلام میں جرائم کے ارتکاب پر معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ، "چوری کا یہ جرم اگر میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا، بھی کرتیں تو میں اس کے ہاتھ کٹوا دیتا۔” لیکن ہمارے ہاں اس یونیورسٹی کے ریپ، بلیک میلنگ، ڈرگز اور "بلیک ویب” جیسے گھناونے واقعات میں بھی اقرباء پروری کی حد کر دی جاتی ہے جس وجہ سے یہ مکروہ واقعات رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔
یورپ جیسے غیر اسلامی ممالک میں ریپ اور اس نوع کی بلیک میلنگ پر قتل جیسے انتہائی جرم کے ہم پلہ سزا دی جاتی ہے۔ شائد آپکو یاد ہو گا کہ انگلینڈ سوہام میں اگست 2002 جب سکول کے ایک اسسٹنٹ آئن ہنٹلے نے ہولی Holly اور جیسیکا Jessica کا ریپ اور مرڈر کیا تھا تو ہنٹلے برطانیہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ نفرت کیا جانے والا شخص قرار پایا تھا (حالانکہ وہاں جنسی آسودگی کوئی بڑا مسئلہ ہی نہیں) جسے پھانسی دینے کے لئے پارلیمنٹ میں آئینی تبدیلی کی جا رہی تھی کہ اس نے جیل میں خود کشی کر لی تھی۔ چین میں موزے تنگ کے دور میں ایک نوجوان لڑکی سے ریپ کا ایک واقعہ پیش آیا۔ لڑکی کو موزے تنگ کے سامنے پیش کیا گیا۔ موزے تنگ نے پوچھا، "جب آپ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو کیا آپ چلائ تھیں؟” لڑکی نے جواب دیا، "ہاں۔” اگلے ہی لمحے موزے تنگ نے ایک کلومیٹر تک پولیس مین تعینات کر دیئے اور لڑکی کو کہا کہ وہ زور سے چلائے اور پھر جہاں تک پولیس اہلکاروں نے اس لڑکی کی چیخ سنی اس علاقے کے تمام مردوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ موزے تنگ نے آرڈر دیا کہ ان سب سے مجرم کے بارے پوچھ گچھ کی جائے اور اگر 24 گھنٹے کے اندر مجرم نہ پکڑا جائے تو ان تمام مردوں کو گولی سے اڑا دیا جائے۔ لیکن صرف آدھے گھنٹے میں مجرم گرفتار ہو گیا تھا جس کے اگلے روز ہی اسے سرعام گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا۔ ایک دفعہ ضیاء الحق کے دور میں بھی خیر پور سے ایک استاد کے ہاتھوں بچوں کے ریپ کی خبریں آئیں، ایک بچے پپو کا ریپ اور قتل ہوا، مجرم کو سر عام پھانسی دی گئی اور اس کے بعد 15 سال تک پاکستان میں کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں ہوئی۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمارا ضمیر اس وقت تک نہیں جاگتا جب تک کوڑے کے ڈھیر سے بچے کی لاش نہ ملے، قصور جیسا کوئی بڑا واقعہ رونما نہ ہو یا کوئی بہت ہی ہولناک ویڈیو یا تصویر وائرل نہ ہو جائے۔
جب قصور میں زینب کے ریپ اور قتل کا واقعہ پیش آیا تھا تو اس کے نتیجے میں ڈارک ویب اور "پورن انڈسٹری” کی نشاندہی ہوئی تھی اور اس کے پیچھے حکومتی عہدیداروں کو بھی ملوث پایا گیا تھا۔ لیکن ماسوائے زینب کے قاتل کو سزا دینے کے علاوہ دیگر مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق 2020 میں کمسن بچوں کے ساتھ ضلع قصور میں 205 زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے، سال 2021 میں کمسن بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور 246 کیسسز سامنے آئے، جبکہ سال 2022 میں زیادتی کے 163 واقعات رپورٹ ہوئے اور یہ تمام واقعات 15 سال کی عمر تک کے بچوں کے ساتھ پیش آئے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طالبات کی 5500 نازیبا ویڈیوز سکینڈل میں ایم این اے چوہدری طارق بشیر چیمہ جو مسلم لیگ ق کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور وفاقی وزیر بھی ہیں، کا بیٹا بھی ملوث بتایا جا رہا ہے، اس کے ساتھ سیکورٹی چیف میجر اعجاز شاہ بھی اس گینگ کا حصہ ہے اور کچھ دیگر بااثر سیاسی شخصیات اور افسران کے بیٹے بھی شامل ہیں۔
قصور کا واقعہ پیش آنے پر پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ وقفے وقفے سے ایسے واقعات 2016 سے مسلسل پیش آ رہے تھے۔ اب بہاولپور میں یہ واقعہ پیش آیا ہے تو اس سے پہلے بھی ایسے ہی واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
ریپ یا جنسی زیادتی صرف ہوس ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے پیچھے طاقت کے ذریعے کمزور اور معصوم لوگوں کو غلام بنانے کی ذہنیت بھی شامل ہوتی ہے۔ بعینہ دیسی جامعات کا یہ کوئی پہلا اور آخری واقعہ ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس طاقتور طبقہ میں یہ آگ کوئی وکھری ٹائپ کی ہے، جس میں لیکچرر، استاد اور پروفیسر ڈیمو ہیں یا پاور سٹرکچر کا حصہ ہیں، جن کا پلڑا بھاری ہے۔ لہذا یہ محض سمسٹر سسٹم کے مسائل کی جڑ بھی نہیں ہے۔ ہماری جامعات میں سیکچوئل ہیراسمنٹ یا جنسی ہراسگی کی تعلیم ہی نہیں دی جاتی ہے! چہ جائیکہ برطانیہ اور چین سے ہٹ کر ہم ایک اسلامی ملک ہیں اور یہ واقعہ بھی "اسلامیہ یونیورسٹی” میں پیش آیا ہے۔ اس کے بارے میں کوئی کمیٹی ہے، اس کو اپروچ اور رپورٹ کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ شکایت کرنے والے کے ساتھ کیا ہو گا؟ یہ طریقہ کار آسان یے یا مشکل ہے اور کتنی جگہوں پر اس کے بارے میں مکمل آگاہی کھل کر دی جا رہی ہے یا نہیں؟ اس سے ہم بلکل ناآشنا ہیں!
کیا اس مسئلے میں قوانین پر عملدرآمد کے ساتھ نفسیاتی ٹریننگ بھی ہونی چاہئے۔ اگر آپ کو کوئی بتائے کہ سڑک پر محلے میں یا گھر میں کسی کزن نے چھیڑا تو آپ کس پر پابندی لگاؤ گے اور کس سے بات کرو گے؟ آپ نے قصور لباس میں ڈھونڈنا ہے، تربیت میں یا شکار میں؟ آخر اس کو قصوروار کیوں نہیں کہنا جو یہ سب کچھ کرتا ہے۔ تعلیم چھوڑی جا سکتی ہے اور نہ ہی گھر سے نکلنا بند کیا جا سکتا ہے کہ آئس کی، جنس کی، ادویات کی، گولیوں کی اور نشوں کی تو ان سب میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جو محض اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ہے اس کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔سندھ کے کسی میڈیکل کالج سے آتی خودکشیوں کی خبروں کے پیچھے کیا کہانی تھی؟ یونیورسٹی اور ہاسٹل کے باتھ روموں میں کیمرے کون نصب کرواتا ہے؟ تعلیم اور ماڈرینٹی کی آڑ میں یہ سب کچھ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم مغربیت کو چھوڑ کر اپنی لوکل اقدار کی روشنی میں قوانین نہیں بناتے اور بڑے چھوٹے یا کمزور اور طاقتور کی تمیز کیئے بغیر ان پر سچے دل سے عمل نہیں کرتے ہیں۔
واقعہ قصور کے وقت شہباز شریف وزیراعلٰی پنجاب تھے اور آج وہی شہباز شریف وزیراعظم پاکستان ہیں۔ کیا وقت نے شہباز شریف کی سوچ اور کارکردگی کو متاثر کیا ہے؟ امید ہے اگر شہباز شریف مرد مجاہد ہیں تو وہ بلاتفریق اس واقعہ میں ملوث کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔