اسلام رواداری کا علمبردار ہے

رواداری فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے لُغوی معنی ہیں ,, کسی بات کو جائز اور مباح رکھنا/تعصب نہ کرنا ،، اور اصطلاح میں اس کا مطلب کُچھ یُوں بیان کیا گیا ہے کہ مذہبی معاملات میں تعصب نہ برتنا ، رعایت کے ساتھ تمام مذاہب کا احترام کرنا ، اگرچہ اُن کی مذہبی روایات – طریقہءِ عبادات – اور تہذیب و تمدن آپ کے مذہب سے میل نہ بھی رکھتے ہوں تب بھی اگر وہ آپ کے مذہب کی مخالفت نہیں کرتے تو رعایتاً جائز حد تک میل ملاپ اور برداشت کا مظاہرہ کرنا

لفظِ رواداری کے لغوی و اصطلاحی معانی کو دیکھتے ہوئے اور تاریخِ انسانی کا مکمل جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلام ہی رواداری کا علمبردار ہے ، یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے بہت بڑا دعویٰ کر دیا ہے، جی ہاں ! ہر دعویٰ دلیل کا متقاضی ہوتا ہے اور بغیر دلیل کے دعویٰ ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا ، میں اپنی اس تحریر میں اِن شاء اللہ اپنے دعوے کو دلیل سے ثابت کروں گا

نوائے مونس

معزز قاری ! اگر ہم انسانی تمدن کی تاریخ کے عمیق سمندر میں غوطہ زن ہوں تو ہم دیکھیں گے کہ انسانیت جسے کبھی روم کے عصائے شاہی نے تڑپتا ، سسکتا ،  اور کراہتا ہوا چھوڑا تھا مدتوں زوال و انحطاط ، جہالت و گمراہی کے گڑھے میں پڑی رہی، مگر پھر ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے انسان کی اس زوال پذیری کو روکنے اور اس میں ایک نئی رُوح پھونکنے کا بیڑا اٹھایا ، انسان کو انسانیت سکھانے اور اس میں تہذیب و شائستگی پیدا کرنے والی اس تحریک کا نام تھا ,, تحریکِ اسلام ،، اس تحریک نے انسانی زندگی کو قبائلی اور علاقائی تعصب اور رنگ و نسل کے امتیاز سے نکال کر معاشی و معاشرتی رواداری ، مذہبی رواداری ، اخلاقی اور قانونی رواداری اور سب سے بڑھ کر انسانی رواداری کا درس دیا ، اس تحریک کے بانی اور رُوحِ رواں آسمانی سلسلہءِ رُشد و ہدایت ، رسالت و نبوت کے آخری تاجدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، جن کے بارے میں مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں

                        اُتر کر حِراء سے سُوئے قوم آیا

                        وہ   اِک  نُسخہءِ  کیمیا  ساتھ  لایا

جی ہاں میرے محترم قاری.! یہ نُسخہءِ کیمیا  قُرآن مجید ہے جو انسانوں کے لیے تا بہ قیامت ایک مکمل آئینِ زندگی کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں انسانی زندگی کے تمام بنیادی قوانین وضع کر دیئے گئے ہیں ، اُسی قُرآن حکیم میں رواداری کے بنیادی اصول دے دیئے گئے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا کہ   لَا اِکرَاہَ فِی الدِّيْنِ   یعنی اسلام میں داخل ہونے کے لیے کسی پر کوئی سختی اور کسی طرح کا جبر نہیں ہے اور سورۃ یونس کی  آیت 99  میں یُوں ارشاد ہوا کہ

وَلَوْ شَأءَ رَبُّكَ َلاٰمَنَ مَنْ فِی الاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْاً ط اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتیّٰ يَكُوْنُوا مُؤْمِنِيْنَ  

اور اے پیغمبر اگر آپ کا ربّ چاہتا تو جتنے لوگ رُوئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہیں کہ سب کے سب ایمان لے آئیں

اور پھر سُورۃُ الکافرون میں ارشادِ قُدرت ہو رہا ہے  کہ اِن سے کہہ دیجیئے کہ جن معبودوں کو یہ پُوجتے ہیں اُنہیں ہم معبود تسلیم نہیں کرتے اور جس ایک معبُودِ حقیقی کی ہم عبادت کرتے ہیں اُسے تم معبود تسلیم نہیں کرتے تو پھر غیر ضروری اور بے مقصد بحث سے گریز کرتے ہوئے اے میرے حبیب صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجیئے کہ تُمہارا دین تمہیں مبارک ہو اور ہمارا دین ہمیں نصیب ہو ، کیا مذہبی رواداری کی اس سے زیادہ خُوبصُورت مثال کسی اور مذہب کے پاس ہے ؟ ہرگز نہیں ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ

  وَ ھَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِراً وَّ اِمَّا كَفُوْراً 

اور ہم نے تو درست راستے کی طرف سب کی راہنمائی کر دی ہے، اب تمہاری مرضی کہ اس راہ پر چل کر شکر گزار بندے بنتے ہو یا انکار کرنے والوں میں شامل ہوتے ہو ،

قابلِ احترام قاری ! آئیے اب تاریخِ اسلامی کا کچھ جائزہ لیتے ہیں؛ ہم دیکھتے ہیں کہ عالمین کے لیے رحمت بن کر آنے والے ہادیِ برحق پر مکہ معظمہ میں زندگی مشکل ترین بلکہ ناممکن بنا دی گئی ، چنانچہ رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اپنے اللہ کے حکم سے ہجرت کر کے یثرب کی طرف تشریف لے گئے اور اُسے مدینہ منورہ بنا دیا، اور پھر بہت ہی مختصر مدت میں مدینہ منورہ دنیا کی پہلی اسلامی نظریاتی ریاست کے روپ میں منظم ہوتی ہے، تو ہمیں اسلامی رواداری کی پہلی فقیدالمثال نظیر دیکھنے کو ملتی ہے، جب اسلامی ریاست کا پہلا باضابطہ معاہدہ یہود و نصارٰی کے ساتھ طے پا رہا ہے جس میں تمام مذاہب کو مذہبی آزادی سے نوازا جا رہا ہے، ایک دوسرے کے مذاہب، مذہبی مقامات و روایات کا احترام لازم قرار دیا جا رہا ہے اور تمام اقلیتوں کو بیرونی خطرات سے تحفظ کی ضمانت دی جا رہی ہے

اور جب یہ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ مضبوط و توانا ہو چکی تو سرکارِؐ دو عالم نے حجِ بیتُ اللہ کا ارادہ فرمایا کفار مکہ نے حجِ بیتُ اللہ سے  ؛  مکہ مکرمہ میں داخلے سے روک دیا اب یہاں  ہر طرح کی حرب و ضرب کی طاقت رکھنے کے باوجود رحمتِ عالَم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کفارِ مکہ سے جنگ کی بجائے ایک معاہدہ تحریر فرمایا ، جو دنیا کی تاریخ میں صلحِ حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ہر طرح کی رواداری کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے،

اور اب میں اپنے معزز قاری کو پوری تاریخِ انسانیت میں رواداری کی عظیم و اعلیٰ ترین مثال کی یاد دہانی کراؤں گا کہ جب کائنات کے عظیم ترین میرِ کارواں اور طاقتور ترین سپہ سالار نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر مکہ کو فتح کر لیا تو وہ تمام لوگ جنہوں نے حضور ختمیِ مرتبت صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کو شدید ترین دکھوں ، اذیتوں ، اور مصیبتوں میں مبتلا رکھا تھا ، اور جو آپ کے خون کے پیاسے اور آپ کے اعزاء و اقرباء کے قاتل تھے آج مفتوح کی حیثیت سے حضور رحمتِ عالَم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں تلے تھے اور پھر مجسم رحمت و رواداری نے تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے  کہ. ,, لَا تَثرِیبَ عَلَیکُمُ الیَومَ  ،، آج کے دن تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا  جاؤ ہم نے تمہیں تمہاری دشمنیوں کو معاف کیا، کیا دنیا رواداری کی ایسی عمدہ و ارفع و اعلیٰ مثال پیش کر سکتی ہے ؟

برصغیر کی تاریخ میں ہمیں جتنا بھی اختلاف ہو مگر ہم مسلمان حکمرانوں کی تمام مذاہب کے ساتھ رواداری سے انکار نہیں کر سکتے اگر ہم لکھنؤ ایکٹ 1916 ء کا بغور مطالعہ کریں تو بالکل میثاقِ مدینہ کی طرز پر قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اپنے ہادی و مولا محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے رواداری کی اسلامی روایت کو برقرار رکھا اور پھر جب اسلام کے نام پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو تمام مذاہب کے ساتھ رواداری کو قانونی حیثیت دی گئی اور اسلامی رواداری کی ایک اور بہترین مثال پاکستان کا قومی پرچم ہے جس میں سفید رنگ غیر مسلم اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے اور تحفظ و محبت و احترام کی واضح علامت و دلیل ہے اس کے مقابلے میں دیگر اقوام عالم نے ایسی کسی رواداری کا مظاہرہ نہیں کیا، ہندو ، انگریز، یہودی اور عیسائی کے تعصب اور عدم رواداری سے تاریخ بھری پڑی ہے، آج یورپی ممالک میں کھلم کھلا  اسلام کے شعائر کا مزاق اُڑایا جاتا ہے، خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے ، مگر نام نہاد امن کے داعی اور انسانیت کے پرچارک ایسی گستاخیوں کی واضح اور .کھل کر مذمت بھی نہیں کرتے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کیمبل پور سے اٹک تک -2

ہفتہ جنوری 2 , 2021
جب ہم نے ہوش سنبھالا تو پاکستان کو بنے ابھی سات آٹھ برس ہوئے تھے

مزید دلچسپ تحریریں