ارشاد ڈیروی قلم اور ایوارڈ
کالم نگار: سید حبدار قائم
اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں قلم کی قسم کھا کر اسے معتبر کر دیا ہے اب انسان قلم سے جو لکھتا ہے اس تحریر کو خیر و شر کے ترازو پر تولا جاتا ہے اگر خیر کا پلڑا بھاری ہو تو قلم کا تقدس برقرار رہتا ہے اگر شر کا پلڑا بھاری ہو تو شر تقدس کی زمین میں کانٹے اُگا دیتا ہے جو انسان کو تکلیف دیتے ہیں اور انسانیت انسان کی راہ سے کانٹے ہٹانے کا نام ہے اور یہ انسانیت کانٹے بچھانے کا نام نہیں ہے قلم سے انسانیت کے راستوں سے کانٹے ہٹانے والے اتنے ہی معتبر ہو جاتے ہیں جتنا قلم معتبر ہے کیوں کہ قلم بذاتِ خود ایوارڈ ہے
جہانِ حرف و صوت میں ارشاد ڈیروی نہ صرف بہترین شاعر ہیں بل کہ اچھے نثر نگار بھی ہیں جن کی نثر نگاری سلاست و بلاغت کی آئینہ دار ہے جو قاری کے فہم و فراست کو تقویت دیتی ہے
ارشاد ڈیروی محلہ نورنگ آباد بلاک 52 ڈیرہ غازی خان میں 1967 کو پیدا ہوٸے آپ نے چوداں کتابیں تصنیف کیں جن میں دو کتابیں نثر کی جب کہ بارہ کتابیں شاعری کی ہیں بارہ کتابوں میں سے آٹھ کتابیں تقدیسی ادب پر مشتمل ہیں جو ان کی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت سے عشق و مودت کے خوب صورت دھنک رنگ ہیں
ارشاد ڈیروی سرائیکی زبان پر دسترس رکھنے والے مہان شاعر ہیں آپ اردو میں بھی لکھتے ہیں بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں لیکن کتابیں مفت دے کر علم بانٹتے ہیں علم بیچنے والے اور ہوتے ہیں ارشاد ڈیروی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی زبان اور اندازِ تخاطب بہت میٹھا ہے جس بندے سے ایک بار ملتے ہیں وہ بندہ انہی کا ہو جاتا ہے
آپ کی شاعری حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم اور ان کی اہل بیت علیہ السلام کے عشق کے گرد گھومتی ہے سلام و مناقب لکھنے سے آپ کی عادات و اطوار بہت احسن ہو گۓ ہیں آپ کے قلم نے جو گل فشانیاں کی ہیں ان کی خوشبو پا کر بہت ساری ادبی تنظیموں نے آپ کو ایوارڈز سے نوازا ہے
آپ کو ملنے والے ٹوٹل ایوارڈز کی تعداد ایک سو ساٹھ ہے جن میں چوّن میڈلز اور ساٹھ اسناد شامل ہیں میرے علم کے مطابق ڈیرہ غازی خان کی ڈویژنل سطح پر سرائیکی کا کوئی ایسا ادیب یا شاعر نہیں ہے جس نے سو سے زیادہ ایوارڈز لیے ہوں یہ ریکارڈ صرف اور صرف ارشاد ڈیروی کو حاصل ہے جس وجہ سے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ حرف و صوت کی دنیا میں ارشاد ڈیروی ایک روشن چاند کی مانند ہیں جن کی روشنی سارے عالم کو منور کر کے ختم نہیں ہوئی بل کہ مسلسل بڑھتی جا رہی ہے
ارشاد ڈیروی موجودہ وقت میں اپنی زبان سرائیکی کی جس قدر خدمت کر رہے ہیں میرے خیال میں انہیں صوبائی اور قومی ایوارڈ سے بھی نوازا جانا چاہیے اور یہ ان کا حق بنتا ہے کیوں کہ آپ ایسے ادیبوں کی پزیرائی کرنا حکومت کا حق بنتا ہے کیوں کہ ماں بولی کو زندہ کرنا بہت بڑی خدمت ہے ماں بولی پر اگر کام نہ کیا گیا تو اس کے الفاظ متروک ہو جائیں گے
ارشاد ڈیروی جیسے مہذب ادیب اس دھرتی کا گہنا ہیں انہیں قلم نے عزتوں سے نوازا ہے تقدیسی ادب جو ادیب تخلیق کرتا ہے اللہ پاک اُس لکھاری کی عزتوں میں مزید اضافہ فرماتا جاتا ہے یقین جانیے کہ قلم نے اقبال بناۓ ہیں قلم نے ہی سر سید احمد خان جیسے زیرک انسان پیدا کیے ہیں یہ قلم ہی ہے جس نے احمد فراز محسن نقوی سعادت حسن آس پروین شاکر ساغر صدیقی اور ارشاد ڈیروی جیسے گوہر نایاب تراشے ہیں ایسے نایاب ہیرے جن کی روشنی سارے عالم کو منور کر رہی ہے میں ان ادبی تنظیوں کی ادب پروری کا معترف ہوں جنہوں نے ارشاد ڈیروی کے کام کو سراہا ہے اور انہیں ان کی ادبی خدمت پر ایوارڈز سے نوازا ہے
ارشاد ڈیروی صاحب آپ کو ان سب ایوارڈز کی بہت مبارک ہو
آخر پر دعاگو ہوں کہ اللہ پاک آپ کے قلم اور صحت میں مزید برکت عطا فرماۓ اور آپ کو حیاتِ خضر علیہ السلام سے نوازے۔آمین
یہ کالم روزنامہ احساس، روازنامہ بارڈر لائن اور روزنامہ سسٹم میں شائع ہوا
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔