اقبال کا تصور شاہین اور پاکستانی جوان کا منصب (ایوارڈ یافتہ مضمون)

اقبال کا تصور شاہین اور پاکستانی جوان کا منصب (ایوارڈ یافتہ مضمون)

شاعر مشرق کے نام سے مشہور و معروف شاعر علامہ محمد اقبال نہ صرف ایک ممتاز اردو اور فارسی شاعر تھے بلکہ ایک فلسفی بھی تھے جن کے افکار، خیالات اور تحریروں نے برصغیر پاک و ہند کے سیاسی اور ثقافتی منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، بالخصوص مسلمانوں کے لیے آپ کی فارسی و اردو شاعری نے ایک رہنما کا کردار ادا کیا۔ اقبال کی شاعری کے بنیادی موضوعات میں سے ایک "شاہین” کا تصور بھی ہے، یہ اصطلاح علامہ اقبال ایک ایسے فرد کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے جو بصیرت والے جذبے اور خود کو حقیقت پسندی کی تحریک کے ساتھ بیان کرتے تھے۔

سند حسن کارکردگی

https://lh3.googleusercontent.com/pw/AP1GczNPXExgO4uwiW86VdpV2R6_EyZpkoOieQ8KJb6i07802dJefwTdMenjPbpxKz3DRDigrG5xaTIodqnx0FZpN6yqg36Dk2u-cwqVOUzi92OJchSAy_eshlMr8MgaObAKZrHPYfNLwTuVpT81aDsboiA6=w1040-h780-s-no-gm?authuser=0


شاہین کا تصور:اقبال کی شاعری میں شاہین ایک ایسے مثالی فرد کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے ماحول کی حدود کو عبور کر کے بلندیوں تک پہنچنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو دوسرے پرندوں پر کبھی بھی بوجھ نہیں بنتا۔ اس کے بجائے وہ آگے بڑھنے اور اونچی پرواز کرنے کے لیے ہر وقت کوشش کرتا ہے، وہ مسلسل کامیابی اور اونچائی کی تلاش میں رہتا ہے، اور معاشرتی اصولوں کو چیلنج کرتا ہے۔ اقبال کا شاہین امید، لچک اور تبدیلی کی صلاحیت کی علامت کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔
اقبال کے نزدیک شاہین جغرافیائی حدود یا ثقافتی پابندیوں میں قید نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک عالمگیر مثال ہے جو کسی بھی معاشرے یا دور میں پایا جا سکتا ہے۔ تاہم اقبال خاص طور پر برطانوی حکومت والے ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کی حالت کے بارے میں فکر مند تھے، اور انہوں نے شاہین کے تصور کو خود کو بااختیار بنانے اور سیاسی آزادی کی طرف تحریک اور متحرک کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا تھا۔
پاکستانی نوجوانوں کا منصب:موجودہ دور میں پاکستان کے نوجوان اپنے آپ کو ایک دوراہے پر پاتے ہیں جس میں سیاسی عدم استحکام سے لے کر معاشی مشکلات اور سماجی مسائل تک کے چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔ اس تناظر میں اقبال کا شاہین کا تصور خاص اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستانی نوجوان شاہین کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنی قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں تبدیلی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اقبال کا ماننا تھا کہ نوجوان سماجی تبدیلی کے محور ہیں۔ ان کے پاس توانائی، جذبہ اور اختراعی سوچ ہے جو رکاوٹوں کو دور کرنے اور ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے درکار ہے۔ تاہم نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرنے کے لیے انہیں رہنمائی، تعلیم اور سماجی و سیاسی میدان میں بامعنی مشغولیت کے مواقع کی ضرورت ہے۔
تعلیم کا کردار:علامہ محمد اقبال کے مطابق تعلیم نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کلید ہے۔ علامہ اقبال نے ایسے افراد کی تشکیل میں فکری ترقی، اخلاقی کردار اور روحانی روشن خیالی کی اہمیت پر زور دیا جو معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اقبال کی یہ ایک جامع تعلیمی نظام کی ترجمانی کرتی ہے جو نہ صرف علمی بصیرت فراہم کرتا ہے بلکہ تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیتوں اور اخلاقی اقدار کو بھی فروغ دیتا ہے۔
علامہ محمد اقبال کا شاہین کا تصور امید اور بااختیار بنانے کا ایک لازوال پیغام پیش کرتا ہے، جو آج پاکستانی نوجوانوں کی امنگوں سے نظر آتا ہے۔ شاہینوں کے جذبے کو اپناتے ہوئے اور تعلیم اور خود کو بہتر بنانے کو ترجیح دے کر پاکستان کے نوجوان ایک روشن مستقبل کی طرف نئی راہیں طے کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال کی میراث کے وارث ہونے کے ناطے مجھ سمیت دیگر پاکستانی نوجوان ایک خوشحال، روشن خیال اور لچکدار قوم کے طور پر علامہ اقبال کے وژن کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سائنس اور مذہب متضاد نہیں

جمعہ مئی 10 , 2024
سائنس اور مذہب کے درمیان پائی جانے والی اس غلط فہمی کی وجہ سے سائنس کے کچھ طلباء اپنی کم علمی کی وجہ سے خدا کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں
سائنس اور خدا متضاد نہیں

مزید دلچسپ تحریریں