نمازِ شب، اکھیاں وچ زمانے، چھانگلا ولی موج دریا اور نعتیہ مجموعہ مدح شاہ زمن کے شاعر سے اِنٹرویو
سید حُبدار قائم ؔ انٹرویو / ڈاکٹر عبدالرشید آزادؔ
سوشل میڈیا پر ایک دوست کے کلام کوپڑھا بہت پسند آیا ہمارے کمنٹ پر اُن کا شکریہ ادا کرنا اور پھر ان باکس نمبرز کالین دین کے بعد اُن کی شخصیت کے پرتو کھلے تو اُن کی چار کتب کے بارے میں پتہ چلا جن میں (1) ٭ نمازِ شب،(2)٭ اکھیاں وچ زمانے،(3)٭ چھانگلا ولی موج دریا ’’ حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ کی سیرت وکردار‘‘ (4)٭ نعتیہ کلام مدحِ شاہ زمن ، اس کے علاوہ ان کے نثری مضامین روزنامہ نوائے وقت، اساس، ڈیلی کشمیر ، ڈیلی گریٹ پاکستان ، پاکستان ، جمالیات ،ذوق، دھنک رنگ، فروغِ نعت،اُرود ڈائجسٹ ،الہام ،لہراں اور ونگاں وغیرہ میں کثرت سے شائع ہوتا رہتا ہے ہم نے ان سے انٹرو یو روزنامہ حرب بقاء کوئٹہ اور ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ کے لئے ریکارڈ کیاہے جو نذر قارئین ہے ۔ (ادارہ )۔
س٭ آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟۔
ج/ میں ضلع اٹک تحصیل پنڈی گھیب کے نواحی گاؤں غریبوال میں 10جنوری 1968ء کو پیدا ہوا ہوں ۔
س٭ آپ نے کہاں کہاں سے اور کہاں تک تعلیم حاصل کی ہے ؟۔
ج/ میں نے پرائمری تک اپنے گاؤں غریبوال میں پڑھا ہے وہاں پرائمری پاس کر کے اپنے گاؤں سے چھ کلو میٹر دور گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیب میں داخلہ لیا میٹرک وہاں سے کیا اُس کے بعد ایف اے بھی گورنمنٹ ڈگری کالج پنڈی گھیب سے کیا اور بی اے کی کلاسز دوسال تک وہاں ہی اٹینڈ کیں لیکن کلیئر نہیں کر سکا کیونکہ اس دوران میں فوج میں بھرتی ہو گیا تھا۔
س٭ آپ نے ادبی دُنیا میں قدم کب رکھا اور شاعری میں اصلاح کن سے لی ؟۔
ج/ میں نے1987ء میں ادبی سرگرمیوں کا آغاز کیا اُس دور میں ہمارے گاؤں میں میرا دوست علی احمد تبسم ؔ تھا جو ادبی رسائل میں لکھتا تھا سچی کہانیاں ، آداب ِعرض، سلام عرض، جواب عرض میں اُسے دیکھ کر مجھے بھی شوق پیدا ہو گیا اور میں نے بھی 1987ء میں لکھنا شروع کردیا تھا۔سلام عرض میں میری بھی ایک دو کہانیاں چھپیں ،جواب عرض میں چھپیں پہلے میں شعر بے وزن لکھتا تھا اُسکے بعد پنڈی گھیب میں ایک شاعر تھے شعیب ہمیشؔ وہ اب واہ کینٹ میں ہوتے ہیں اُنہوں نے پنڈی گھیب میں حلقہ ارباب شاد نامی ایک ادبی تنظیم بنائی اُس تنظیم میں اُنہوں نے مجھے بھی ممبر بنایا وہاں مشاعرے ہوتے تھے تو میں وہاں پر اپنا کلام توکل ساٸلؔ صاحب کو دکھاتا تھا وہ پنڈی گھیب کے بزرگ شاعر تھے اُن سے اصلاح لیکر وہاں مشاعروں میں اپنا کلام سناتا تھا ۔
س٭ شاعر کو بنیادی طور پر کیسا ہونا چاہئے ؟۔
ج/ شاعر کو بنیادی طور پر نرم دِل ،حساس ہونا چاہیے اور اُس کی نگاہ معاشرے کی ہر چیز پر ہونی چاہئے اسے حکومت کے اقدامات کی تائید اور تنقید دونوں پر قلم اُٹھانا چاہئے ۔غریبوں کے حق میں آواز بلند کرنا اور حق گوئی کا ہمنوا ہونا شاعر کا شیوہ ہوناچاہئے۔
س٭ پاکستان کی قومی زبان اُردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے ادب کو آپ کیسا دیکھتے ہیں ؟۔
ج/ پاکستان میں ہر 25 کلومیٹر کے بعد زبان تبدیل ہوجاتی ہے پنجابی ہو، بلوچی ہو، پشتو ہو، سندھی ہو یا اور کوئی زبان ہو پاکستان میں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں یہ تمام زبانیں ہماری ہیں ہمارا اصل اثاثہ ہیں یہ ماں بولی زبانیں ہیں ان زبانوں میں پرائمری سطح سے لیکر میٹرک تک مضامین ہونے چاہئے ، جو کہ پڑھاۓ جانے چاہئیں، تاکہ لوگ اپنی ماں بولی زبان کو بھول نہ جائیں کیونکہ جو ہماری زبان کی خوشبو ہے اس میں ہماری ماؤں کی باتیں ہیں بہن بھائیوں کا پیار انہی ماں بولی زبانوں میں موجود ہے اُردو چونکہ ہمارے صوبوں کے درمیان رابطے کی زبان ہے اس لیے قومی زبان کہلاتی ہے اور اُس کا احترام بھی بہت ضروری ہے اُس میں بھی کام کرنا چاہئے لیکن ماں بولی زبان کو ہر سکول میں پڑھایا جانا چاہئے اور سکولوں میں اساتذہ کرام سے اس زبان میں بھی گفتگو کی اجازت ہونی چاہئے۔ جو اُس علاقے کی زبان ہے۔
کیونکہ ہمارے بچے اپنی مادری زبان کے بہت سے بنیادی الفاظ بھولتے جا رہے ہیں وہ الفاظ ہماری نئی نسل کو پتہ نہیں ہیں ہماری زبان آھستہ آھستہ ختم ہو رہی ہے لہذا اپنی زبانوں کو زندہ رکھنے کے لئے گھروں میں اور سکولوں میں خاص طور پر اپنی ماں بولی زبان بولنی چاہئیے ۔
س٭ آپ ادب میں تنقید کوکیسا دیکھتے ہیں اور ادب میں کیا تنقید ہونی چاہئے؟۔
ج/ جی بالکل ادب میں تنقید بالکل ہونی چاہئے آپ جس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں سب سے پہلے اُس کتاب کے اوصاف دیکھیں اُس کی برائی کو نہ دیکھیں صاحب کتاب کی غلطیوں کو نظر انداز کریں صرف کتاب کے فن اور اوصاف کومدنظر رکھ کر وہی بیان کریں اس کے علاوہ جو تنقیدی محافل ہوتی ہیں اُن کا ہونا بھی بہت ضروری ہے اُن پر اس انداز میں تنقید ہو، کہ، بندہ کچھ سیکھ سکے اُس کی اصلاح ہو، فن کی اصلاح کے لیے تنقید ہو ، ذاتی عناد نہ نکالا جائے تنقید برائے تنقید نہ ہو بلکہ تنقید برائے اصلاح ہو۔
س٭ عام آدمی کو ادب کی طرف راغب کرنے کے لئے کیا کیا جانا چاہئے؟۔
ج/ ایک عام آدمی کو ادب کی طرف راغب کرنے کے لئے جتنے بھی لکھاری ہیں اُن کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان کو اپنی کتابیں نوجوانوں میں بلامعاوضہ تقسیم کرنی چاہییں اور میں نے اپنی تمام کتابیں اسی نظریے کے تحت نوجوانوں میں بالکل مفت تقسیم کی ہیں اسی طرح دوسرے شعراء کرام کو بھی تقسیم کرنی چاہئییں تاکہ نوجوانوں میں مطالعے کا رحجان پیدا ہو آج کل کے دور میں کتاب شائع کرانا بہت مشکل کام ہے لیکن میری یہ خواہش ہے کہ ہر شہر میں اور ہر محلے میں لائبریریاں ہونی چاہئیں وہاں کتب بالکل مفت دی جائیں تاکہ لوگوں کا رحجان کتب کی طرف بڑھے اس سلسلے میں مختلف سیمینارز ہونے چاہئے ،کتب میلے ہونے چاہئے، شہروں میں ، گاؤں کی سطح پر ہوں ،شاعر ،ادیب، افسانہ نگار، ناول نگار، کالم نگار،ڈرامہ نگار،ان کی کاوشیں عوام اور قارئین کے سامنے آنی چاہئیں صرف کتاب چھاپ کر گودام میں اسٹاک کر دینے سے کچھ نہیں ہوتا سکولوں میں، کالجوں میں ، یونیورسٹیز کی سطح پر کتب بینی کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔
س٭ آپ نے جب ادبی دُنیا میں قدم رکھا تو اُس وقت آپ کے ارد گرد کا ادبی ماحول کیسا تھا؟۔
ج/ 1987ء کے دور میں پنڈی گھیب کی ادبی صورتحال کوئی بہت خوش افزاء نہیں تھی بہت ہی تھوڑے سے لوگ تھے جو لکھتے تھے توکل ساٸل، عبداللہ صحرائی، اور چند گنتی کے گنے چنے لوگ تھے وہاں اُس دور میں کوئی خاص ادبی تنظیم نہیں تھی ،حلقہ ارباب شاد اُس وقت نئی نئی تنظیم بنی تھی وہ مہینے میں ایک آدھ مشاعرہ کراتی تھی جس میں ہم سب اکھٹے ہوتے تھے اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
س٭ آپ کی کتب کی اشاعت میں کسی ادبی تنظیم ،ادارے، حکومت کی طرف سے کوئی مالی تعاؤن یا امداد کی گئی ہو ؟۔
ج/ جی نہیں بالکل بھی نہیں سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے خود اپنی جیب سے یہ رقم خرچ کر کے اپنی کتب شائع کرائیں ہیں چونکہ میں ایک ریٹائرڈ فوجی ہوں اور میرا گذر بسر میری پینشن پر ہے اور بڑی مشکل سے گذارا کرتا ہوں اور اپنی چار کتابیں میں نے بڑی مشکل سے شائع کرائی ہیں اس میں کسی بھی ادبی تنظیم، گورنمنٹ یا کسی شخصیت کی سرپرستی بالکل نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اتنا مشہور آدمی نہیں ہوں میں نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ قلم اُٹھایا ہے اب میں لکھتاہوں اور لکھتا ہی چلا جا رہا ہوں میری دو کتب مزید آنے کو تیار ہیں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میرے مالی وسائل اس کی اجازت نہیں دے رہے ۔
س٭ موجودہ شاعری کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟۔
ج/ میرے خیال میں موجودہ دور میں بہت اچھی شاعری ہورہی ہے خصوصاً سوشل میڈیا پر جو لوگ علم عروض سکھاتے ہیں اُن کی وجہ سے خاصی آسانی پیدا ہو گئی ہے اب تو سوشل میڈیا نے بہت زیادہ آگہی پھیلا دی ہے شاعری کے بارے میں ۔
س٭ ادب میں گروہ بندی کے عمل کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟۔
ج/ میری ذاتی رائے میں یہ کوئی احسن کام نہیں ہے ہم جہاں بھی چلے جائیں کسی بھی شہر چلے جائیں شاعروں کے جتھے بنے ہوئے ہیں اس گروہ بندی کا منفی اثر بہت زیادہ بڑھ رہا ہے بلکہ اب تو اس حد تک دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جو بندہ کسی گروپ میں یا گروہ میں شامل نہیں ہوتا اُسے اچھے شعر پر بھی داد نہیں دی جاتی ،داد بھی آج کل اسٹیٹس پرستی کی وجہ سے دی جاتی ہے اسٹیٹس کو دی جاتی ہے ،کلام کو داد بہت کم دی جاتی ہے ۔گروہ بندی نے ہمیشہ ادبی ماحول کونقصان ہی پہنچایا ہے کیونکہ جب ایک بندہ اسٹیج پر اپنا کلام یا اپنا مافی الضمیر سمجھا رہا ہوتا ہے تو اُسے پتہ نہیں ہوتا کہ اُس کے مخالفین یا دوسرے گروہ کے لوگ کیا ری ایکٹ کریں گے ،ادیبوں اور شعراء کو گروہوں میں بٹنے سے گریز کرنا چاہئے اور ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
س٭ ہمیں کیسا ادب تخلیق کرنا چاہئے؟۔
ج/ ہمیں اس دور میں ایسا ادب تخلیق کرنا چاہئے کہ جس میں محبتوں کی خوشبو آئے اگر ہم اسی طرح نفرتوں کو لیکر چلیں گے تو ادب کہاں سے فروغ پائے گا ابھی آپ سوشل میڈیا پر ہی دیکھ لیں کہ ادب کو فرقہ بندیوں میں بانٹا جارہا ہے تفرقہ بازی ادب میں نہیں ہونی چاہئے۔
آپ کا نظریہ ادب کیا ہے؟۔
ج/ میرے خیال میں نظریہ ادب ( وقولو اللناس حسنا ) کی عملی تفسیر ہے کہ گفتگو جو بھی کی جائے اُس میں جمالیاتی حسن ہو اور دین و مذہب کا رحجان بھی ہو یعنی اس انداز سے ہو کہ اُس میں صرف محبتیں ہوں نفرتیں نہ ہوں ،اچھی بات کہیں سے بھی ملے وہ شعر کی صورت میں ہو یا نثر کی صورت میں ہو اس پر داد دیں آپ شعر یا نثر ایسی لکھیں تاکہ پڑھنے والے کے دل و دماغ پر اُس کا مثبت اثر پڑے۔
س٭ آپ کو کسی ادبی تنظیم کی جانب سے یاحکومت کی طرف سے کوئی ایوارڈ وغیرہ ملا ہو تو بتائیں ؟۔
ج/ مجھے ادبی تنظیم "انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان” کے شہزاد اُفق نے میری پنجابی کتاب ( اکھیاں وچ زمانے ) پر شیلڈ دی ہے پچھلے سال نومبر دسمبر میں جب اُنہوں نے اپنی تنظیم کے تحت پروگرام منعقد کرایا تھا ۔
س٭ ادب کے فروغ میں سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے کردار کو آپ کیسا دیکھتے ہیں ؟ ۔
ج/ میں اپنی ذات تک بات کروں گا میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا بہت موثر ذریعہ ہے ادب کے فروغ کے لئے اس میں ادبی تنظیموں کے زیر اہتمام ہونے والے پروگرامز کی رپورٹ بھی منظر عام پر آتی ہیں ،انفرادی کلام، و انفرادی کارکردگی بھی منظر عام پر آتی ہے پھر آج کل آن لائن ادبی طرحی مشاعروں میں لوگوں کی شرکت ثابت کرتی ہے کہ یہ ایک بہت پاور فل میڈیا بن چکا ہے ادب کے فروغ کے لئے۔ میں نے 2015ء میں فوج سے ریٹائرمنٹ لی اور پھر میں نے جو کچھ ادب میں سیکھا ہے وہ کتاب اور سوشل میڈیا ہی سے سیکھا ہے ،سوشل میڈیا بڑا فعال ہے ادب کے فروغ میں ۔
حبدار قائم ؔ کے کلام کا نمونہ آپ قارئین کی نذر۔
نعت رسول کریم ﷺ
یہ جذبوں میں عزت اُنہی ؐ کی بدولت
دھنک رنگ مدحت اُنہی ؐکی بدولت
یہ پھول اور کلیاں اُنہی کی بدولت
صبا اور نکہت اُنہی ؐکی بندولت
مدینہ سے ہم کو ملی ہے یہ طاقت
یہ عزم اور ہمت انہیؐ کی بدولت
یہ کھانا یہ پینا اُنہی ؐ کے ہے دم سے
یہ پانی یہ شربت اُنہی ؐ کی بدولت
یہ چاند اور تارے اُنہیؐ کی بدولت
یہ انوار و نزہت اُنہی ؐ کی بدولت
یہ حسنِ سخن اور الہام کی ضو
خیالوں میں رنگت انہیؐ کی بدولت
یہ قرآں کی آیت عبادت سعادت
فصاحت بلاغت اُنہیؐ کی بدولت
جہان ِ تگ و دو میں دیکھا ہے ہم نے
سخاوت صداقت اُنہیؐ کی بدولت
جہاں میں کہاں پر تھی بیٹی کی عزت
ملی اس کو عظمت اُنہیؐ کی بدولت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعار سید حبدار قائم ؔ
سسکتے ہوئے اُس کو رخصت کیاجب
ٹپکتی ہوئی آنکھ غم سے مری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے غم نے توڑا مرے ہمسفر سن
فقط تیرے آنے سے میں جڑ سکوں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت رسول مقبول ﷺ
نبی کے ٹھکانے سر ِ آسماں ہیں
زمیں پر بھی ان کے نشاں ہی نشاں ہیں
یہ فرمان ِ ذیشاں حدیثوں میں دیکھا
’’وہ تخلیق ِ اول وہ روحِ جہاں ہیں ‘‘
وضاحت زمانے کی میں کردوں یارو
زمانے اُنہی کے انہی سے زماں ہیں
اُنہی کا ہے نور اس جہاں میں ہویدا
اُنہی کے لئے روشنی کے سماں ہیں
وہی میرے مولا وہی میرے آقاؐ
وہی میری سانسوں میں ہر پل رواں ہیں
اُنہی کے تصور سے ایسے ہوں روشن
درودوں میں لگتا ہے آقا یہاں ہیں
مجھے نعت لکھتے ہوئے یہ لگا ہے
کہ مولا کے تلووں پہ بوسے رواں ہیں
کہا آپ ؐنے بیٹیاں ہیں یہ رحمت
مرے گھر میں رحمت کے دو آسماں ہیں
نبیؐ آخری ہیں محمدؐ ہی قائم ؔ
اسی بس عقیدے پہ من گل فشاں ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |