پروفیسر مرید عارف، راجن پور، سے مصاحبہ
مصاحبہ نگار : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان
پروفیسر مرید عارف کا خاندانی نام مرید حسین ہے جب کہ ادبی دنیا میں مرید عارف کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ بستی چاچڑ فاضل پور ضلع راجن پور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ 6 جولائی 1982ء کو اللّٰہ بخش چاچڑ کے گھر پیدا ہوئے ۔
تعلیم پرائمری اسکول چک لسہ سے پنجم کا امتحان پاس کیا ۔ گورنمنٹ ہائی اسکول فاضل پور سے میٹرک ، گورنمنٹ کالج راجن پور سے ایف اے اور بی اے کیا ۔ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے مطالعہ پاکستان اور ایم اے سرائیکی کا امتحان پاس کیا ۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کیا ۔ اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے پی ایچ ڈی سرائیکی کرنے میں مصروفِ عمل ہیں ۔ ایم فل میں تحقیقی مقالے کا عنوان سرائیکی حسنیی ڈوہڑے دی روایت اور پی ایچ ڈی میں مقالے کا عنوان
"سرائیکی مرثیےدا سماجی مطالعہ” ہے۔مرید عارف اس وقت گورنمنٹ گریجویٹ کالج فاضل پور ضلع راجن پور میں اسسٹنٹ پروفیسر سرائیکی کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
مرید عارف سے چند روز قبل ہونے والی گفتگو میں جو سوالات و جوابات ہوئے ہیں وہ نذر قارئین ہیں
سوال : آپ نے ادبی سفر کا آغاز کب اور کس صنف سے کیا ۔؟
جواب : میں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا ۔ ابتدا میں سرائیکی نوحہ لکھا ۔ جو مختلف نوحہ خواں پارٹیاں پڑھتی تھیں ۔ میں نے پہلا نوحہ دسویں کلاس میں لکھا ۔ اس کے بعد دوسری اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ۔ دوہڑہ ، غزل ، نظم ، کافی میں طبع آزمائی کی ۔ لیکن بعد میں نے شاعری سے نثر کی طرف قلم کو موڑا ۔ نثر میں تحقیق و تنقید کے میدان میں آیا ۔ میری پہلی کتاب "سرائیکی مرثیے وچ نثر”
2016ء چھپی ۔ جس میں 21 مرثیہ نگار شعراء اور نثر نگاروں کے حالاتِ زندگی کے علاوہ نثری نمونے موجود ہیں ۔ میری دوسری کتاب تحقیقی و تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے ۔ جس کا نام "کھرے اکھر” ھے اس میں مختلف شعراء اور نثر نگاروں کی شاعری اور نثر کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے ۔
میری تیسری کتاب "سرائیکی حسنیی ڈوہڑہ ، ٹورتے پندھ "
جس میں ڈوہڑے کا تعارف ، سرائیکی ڈوہڑے کی روایت ، حسینی ڈوہڑے کی روایت کے ساتھ ساتھ 200 سو سے زیادہ حسنیی ڈوہڑہ نگاروں کا تعارف اور ان کے کلام کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔
سوال : آپ کو کب اور کیسے محسوس ہوا کہ آپ کے اندر تخلیق کار موجود ہے ۔؟
جواب : جب میں آٹھویں کلاس میں تھا تو میں نے سرائیکی شاعری کا آغاز کیا ۔ اس وقت ڈوہڑوں کی چھوٹی چھوٹی کتب جو کتابچہ نما ہوتی تھی ملتی تھیں ۔ میں اکثر وہ خرید لیا کرتا تھا ۔ ان کا مطالعہ کرتا تھا ۔ دسویں کلاس میں تھا مجھے محسوس ہوا میں لکھ سکتا ہوں ۔ سو میں نے شاعری موزوں کرنی شروع کر دی ۔
سوال : ہر شہر اور علاقہ میں شعراء کرام کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ اس پر کچھ کہنا پسند کریں گے ۔؟
جواب : اصل میں شاعری حساس لوگ کرتے ہیں ۔ معاشرے میں حساس لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں ۔ ہمیشہ سے معاشرے میں شعراء کی تعداد کم رہی ہے ۔
سوال : نئے شعراء کی سرکاری سطح پر کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہورہی ہے ۔ اس کی وجہ ۔؟
جواب : پہلے دور میں شعراء کرام کی درباروں میں حوصلہ افزائی ہوتی تھی ۔ لیکن موجودہ دور میں ایسا نہیں ہوتا ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک تو یہ ھے کہ جو ادبی ادارے ہیں اس میں بیٹھے لوگ اپنے دوستوں اور اپنی لابی کے ادیبوں کو گورنمنٹ مراعات سے مستفید کرتے ہیں ۔ جس سے کئی حقدار ادیب حق سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ خاص کر مضافات کے ادیب اس سے زیادہ متاثر ہو تے ہیں ۔
دوسرا فن کی آبیاری حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
سوال : آپ کی ادبی خدمات قابلِ ذکر ہیں ۔ سرکار کی طرف سے کوئی ایوارڈ ملا ۔؟
جواب : میں فقیر منش انسان ہوں ۔ میں ادیب کا معیار ایوارڈ کو نہیں سمجھتا ۔ میں نے خود کبھی اپنی کوئی کتاب ایوارڈ کے لیے نہیں بھیجی اور نہ کبھی ایوارڈ یا صلے کی تمنا کی ہے ۔
سوال : رثائی ادب کے حوالے سے اظہارِ خیال کریں ۔
جواب : مرثیہ سرائیکی کی سب سے قدیم اور بڑی صنف ہے ۔ لیکن اس پر ابھی تک کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا ۔ سرائیکی خطہ دراصل ہمیشہ سے حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے اس لیے یہاں پر ہر آنے والےحکمران نے لوٹ مار کی ہے ۔ سرائیکی وسیب کے لوگ مظلوم و محکوم رہے ہیں ۔ اس لیےان کو ہمیشہ مظلوموں اور محکوموں سے ہمدردی رہی ہے ۔ واقعہ کربلا مظلومیت کی انتہا ہے ۔ اس لئے غمِ حسین علیہ السّلام میں شاعری کرنا سرائیکی دھرتی کے لوگوں کی سرشت میں شامل ہے ۔ دوسرا یہاں کا جفرافیہ اور کربلا کا جفرافیہ بھی مماثلت رکھتا ہے ۔ سرائیکی زبان کا سوز اور درد بھی سرائیکی مرثیے کے لئے مدد گار ثابت ہوا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس طرح کی اور بھی کئی وجوہات ہیں جو سرائیکی ادب میں رثائی ادب باقی مقامی زبانوں سے زیادہ لکھے جانے کی ہیں ۔ یہاں کی کچھی کی ذاکری عالمی لیول پر اپنا منفرد مقام رکھتی ہے ۔ سرائیکی کا نوحہ اُردو کے نوحے سے زیادہ درد انگیز اور پر سوز ہے ۔ یہاں کا بند (دوہڑہ) جب مقامی سروں میں پڑھا جاتا ہے تو درد کے دریا بہا دیتا ہے ۔
سوال : تحقیق و تنقید مشکل میدان ہے آپ کیا سوچ کر اس میدان میں اترے ہیں ۔؟
جواب : اس طرف آنے کا مقصد سرائیکی میں تحقیق و تنقید کی کمی کو پورا کرنا تھا ۔ کیوں کے سرائیکی میں شاعری بہت ہورہی ہے ۔ نثر میں بھی کچھ نہ کچھ لکھا جارہا ہے ۔ لیکن تحقیق و تنقید میں بہت کم لکھا جارہا ہے ۔ اس لئے میں اس میدان میں آیا ۔
سوال : آپ نے سرائیکی ادب پر بہت کام کیا اور مزید بھی ارادہ رکھتے ہیں ۔؟
جواب : جی ہاں سرائیکی ادب پر میرا اور بھی کام جاری ہے ۔ اس میں کچھ تدوین ، تحقیق اور تنقید کی کتابوں پر کام کر رہا ہوں جو تقریباً مکمل ہونے والا ہے ۔ میری چار نئی کتابیں تقریباً مکمل ہونے والی ہیں ۔ جو جلد قارئین تک پہنچ جائیں گی ۔
سوال : مرید عارف آپ ایک غزل عنایت فرمائیں ۔؟
جواب : جی ہاں غزل کے تین اشعار مجھے یاد ہیں ۔
اشعار
توڑ گیا صدیوں کا ناطہ
کچھ تو کرتا پاس ہماری
مان تھا جس کا لمحہ لمحہ
توڑ گیا وہ آس ہماری
تجھ بن عارف کون کریگا
دشمن شہر احساس ہماری
سوال : سر آپ کا بہت شکریہ ۔ آپ نے ہمیں وقت دیا ۔
جواب : نہیں شکریہ تو ذکی صاحب!آپ کا بنتا ہے ۔ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا اور انٹرویو لیا جس کا میں آپ کا ممنون و مشکور ہوں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔