معروف ادبی شخصیت مقبول ذکی مقبول سے مصاحبہ
تحریر و تحقیق انٹرویو کنندہ : ریحانہ بتول ، بھکر
مقبول ذکی مقبول کے آباؤاجداد کا تعلق قدیمی و تاریخی شہر منکیرہ (بھکر) سے ہے اِن کے بزرگ بسلسلہ روزگار 1956ء کو منکیرہ چھوڑ کر لیہ چلے گئے تھے ۔ مقبول ذکی کی پیدائش یکم جنوری 1977ء کو کینال کالونی لیہ میں ہوئی اِن کے والد کا نام اقبال حسین ہے اِن کا خاندانی نام مقبول حسین ہے اور ادبی دنیا میں مقبول ذکی مقبول کے نام سے شہرت رکھتے ہیں ۔ اِن کے بزرگ 1982ء کو لیہ سے واپس منکیرہ میں آ کر آباد ہو گئے ۔
مقبول ذکی مقبول سے میرا تعلق 7 اگست 2008ء سے قائم و دائم ہے ۔ اِن شاء اللّٰہ تا حیات قائم و دائم رہے گا ۔ جتنا میں نے اِن کو قریب سے دیکھا ہے میں دعویٰ کرتی ہوں کسی نے نہیں دیکھا ہوگا ۔ سادہ طبیعت عقل مند ، دین دار ، شرم و حیا کرنے والا ، خوش اخلاق ملن سار سیدھا سادہ ، نماز روزہ کا پابند نیک سیرت کبھی مذاق کرتے نہیں دیکھا کوئی مذاق کرے تو سچ سمجھ لیتا ہے ۔ جو اِس کے من میں بات ہوتی ہے وہی کرتا ہے ۔ اِس کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہے جو اپنے لیے بھلائی چاہتا ہے وہی دوسروں کے لیے چاہتا ہے ۔ معاشرے میں اِس طرح کے انسان بہت کم ملتے ہیں ۔ مہمان نوازی میں بڑی خوشی محسوس کرتا ہے ۔ پُر امن رنگ و خوشبو بکھیرتی ہوئی حقیقت اِن کی گفتگو میں تحریر و تقریر میں اور کتب میں جلوہ فگن ہیں ۔
اِن کے اندر برداشت کی قوت بھی موجود ہے ۔ جیسے کسی نے کیا خوب کہا تھا اچھی کتاب اور اچھا دوست سمجھ میں آتا ہے مگر دیر سے مقبول ذکی آج کے دور میں ایک ایسا ہی اچھا انسان ہے جو سمجھ میں آتا ہے مگر دیر سے ۔ مقبول کی کچھ اُس وقت کی مجبوریاں و مسائل کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے اللّٰہ پاک نے انِ کو سننے والے کان دیکھنے والی آنکھیں اور سوچنے والا دماغ عطا کر رکھا ہے ۔ اِس کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں نہیں ہیں ۔ اپنے شوق کی بدولت تین زبانوں میں شعر کہتے ہیں ۔ سرائیکی ، اُردو اور پنجابی میں ۔ نثر بھی بڑی جاندار لکھتے ہیں ۔ آٹھ کتابوں کے مصنف ہیں ۔ چار شعری مجموعے اور چار نثر کی کتابیں ہیں ۔ جو عوامی اور علمی و ادبی حلقوں سے پزیرائی حاصل کر چکی ہیں ۔ اِن کی کتابوں میں ملکِ پاکستان کے معروف پروفیسر و ڈاکٹر صاحبان نے مضامین شخصیت و فن پر لکھے ہیں ۔ جو اِن کی کتابوں میں شامل ہیں ۔ کتابوں کے شائع ہونے کے بعد بھی معروف قلم کاروں نے مضامین لکھے ہیں ۔ جو رسائل وجرائد اور اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ۔ اصل میں لکھنے کی خوبی اللّٰہ پاک کی طرف سے ہوتی ہے ۔ لکھنے کی خوبی اللّٰہ پاک ہر کسی کو عطا نہیں کرتا ذکی کے اندر لکھنے کی خوبی فطری طور پر پائی جاتی ہے
مقبول ذکی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہیں ان کے شاعر و ادیب ہونے کی وجہ سے محکمہ کے ملازمین مزید قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنی اچھی رائے کا اظہار بھی کیا کرتے ہیں ۔
ملازمین کی رائے ملاحظہ فرمائیں
ٹی ایچ کیو ہسپتال ، منکیرہ ہیڈ نرس پروین کی رائے
مقبول ذکی مقبول انتہائی ملنسار اور بہت اچھے اخلاق کے حامل انسان ہیں ۔ اپنی ذمہ داری کو بہت خوب انجام دیتے ہیں اور وقت کے پابند انسان ہیں اور اپنے سٹاف کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے ہیں ۔
بی ایچ یو ، گوہر والا ڈسپنسر حاجی مرید عباس پشیہ کہتے ہیں
"مقبول ذکی مقبول کی کتب سجدہ اور منتہائے فکر کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا جو کہ پڑھ کر بہت خوش ہوا ان کے الفاظ کا چناؤ زبردست ہے ۔ ذکی صاحب صحت کے شعبہ سے وابستہ ہیں ہمارے ایک مدت سے شناسا ہیں ۔ ان کا رویہ بہت اچھا ہے پانچ وقت کے نمازی بہر حال ہر لحاظ سے اِن کی طبیعت قابلِ رشک ہے ۔ دعا ہے کہ ان کی توفیقات میں اللّٰہ پاک مزید اِضافہ کرے ۔”
محمد ایاز پبلک ہیلتھ انسپکٹر ، تحصیل منکیرہ کہتے ہیں
"مقبول ذکی مقبول جو کہ محکمہ صحت کا ملازم ہے میں نے ایک سال ڈیوٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر منکیرہ کے دفتر میں ان کے ساتھ ڈیوٹی سر انجام دی مقبول ذکی ایک ایمان دار اور باکردار انسان ہیں اور ڈیوٹی کا پابند تھا ۔ میں نے اپنی 14 سالہ سروس میں مقبول ذکی جیسا اچھا فرد محکمہ صحت میں نہیں دیکھا جو کہ نیک نیتی سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا تھا ۔ میری خوش قسمتی تھی جو ایک سال مقبول ذکی جیسے شریف ایمان دار کے ساتھ ڈیوٹی کی ۔”
لکھنے کی خدا داد صلاحیت کی بدولت مقبول ذکی مقبول اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں ۔
چند روز قبل علم و ادب کے حوالے سے اِن سے گفتگو کی گئی ہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتی ہوں ۔
سوال : آپ کا اسلوب قوسِ قزاح کی طرح ہے ۔ اِس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں ؟
جواب : میں تو یہی کہہ سکتا ہوں الحمدللہ ،
جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے وہ تو ناقدین ، قارئین ، سکالرز اور آپ جیسے لوگوں نے ہی اسلوب پر بات کرنی ہے ۔ میں بھلا یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میرا اسلوب اِس طرح کا ہے وغیرہ وغیرہ یہ تو اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہے ۔ بہرکیف آپ کی بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے ۔
سوال : آپ کے نزدیک ادب کیا ہے ؟
جواب : ادب زندگی میں خوش گوار بہاریں لاتا ہے ۔ ادب کا زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے ۔ یہ کوئی آج کل کی بات نہیں جب سے انسان وجود میں آیا ہے اُس دن سے ادب نے انسانی زندگی میں انسانیت پیدا کرنے کا کام شروع کیا ہے ۔ جو تا حال جاری ہے ۔
سوال : شاعری کیا ہے قارئین کو آگاہ کریں ؟
جواب : شاعری کا تعلق انسانی زندگی سے ہے جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ۔ یہ ایک درس کا درجہ رکھتی ہے ۔ شاعری انقلاب برپا کرتی ہے انسان کے اندر تبدیلی لاتی ہے ۔ اِس کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کی شاعری نے ہی تو قوم کو بیدار کیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا ہے ۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب ٫٫ مقدمہ شعر و شاعری ،، میں لکھتے ہیں عرب میں ایک بیوہ خاتون کی سات بچیاں تھیں مگر ان کے رشتے نہیں آرہے تھے ۔ وہ خاتون ایک نابینا شاعر کے پاس گئی اور کہا میری بچیوں کے رشتے نہیں آرہے ہیں ۔ شاعر نے کہا آپ ان بچیوں کے نام ابو کا نام اور قبیلہ کا نام بتا دیں رشتے آئے گے ۔ اس شاعر نے نظم کے ذریعے ان کے حُسن و جمال کی تعریف کی تو رشتے آنے شروع ہو گئے اس طرح سب لڑکیوں کی شادی ہوگئی جب ایک بچی کی شادی ہوتی تو وہ خاتون انعام کے طور پر شاعر کو ایک اونٹ دیتی تھی یکے بعد دیگرے سب کی شادی ہوگئی ۔
سوال آپ مصاحبہ نگاری میں کمال مہارت رکھتے ہیں اور آپ کو اِس ادبی کارمے پر پزیرائی بھی ملی ہے ۔ اِس طرف کیسے آنا ہوا ؟
جواب : یہ غالباً 2003ء یا 2004ء کی بات ہو گی اُس وقت اخبارات کا عروج تھا روزنامہ ٫٫ نوائے وقت ،، روزنامہ ٫٫ خبریں ،، روزنامہ ٫٫ پاکستان ،، روزنامہ ٫٫ جنگ ،، اور روزنامہ ٫٫ اوصاف ،، ان میں انٹرویو شائع ہوا کرتے تھے ۔ ان کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتا تھا ادبی صفحے کا تو شدت سے انتظار کیا کرتا تھا کون سے دن کس اخبار میں ادبی صفحہ ہوگا ۔
انٹرویو بھی بڑے طویل ہوا کرتے تھے اخبار کے ہاف پیچ پر ہوتے تھے ۔ کبھی کبھار تو پورے پیچ پر انٹرویو ہوتا تھا ۔ ان کا مطالعہ کرنے پر خوشی ہوتی تھی ۔ کراچی سے ایک ڈائجسٹ شائع ہوا کرتا تھا اُس کا نام تھا ماہنامہ ٫٫ سرگزشت ،، اِس میں ہر ماہ کو ایک انٹرویو پڑھنے کو ملتا تھا جو غالباً بیس سے پچیس صفحات پر مشتمل ہوتا تھا اور مجھے یاد آرہا ہے 2006ء یا 2007ء کی بات ہو گی علی شاہ مرحوم ( منکیرہ ) بھکر نے استاد الشعرا سئیں نذیر احمد ڈھالہ خیلوی کا انٹرویو میرے سامنے لیا تھا کچھ دنوں بعد ایک سماجی شخصیت کا انٹرویو لیا تھا مجھے بھی ساتھ لے گئے تھے یہاں تک تو میرے خیال میں مصاحبہ نگاری کی طرف آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ایک ہمارے دوست اسلام آباد میں رہتے ہیں ان کا نام ملک یاسر صابری ہے 2019ء کو انہوں نے اپنی انٹرویو والی کتاب جس کا نام تھا ٫٫ اندازِ گفتگو ،، مجھے بھیجی جب اُس کا مطالعہ کیا تو بڑی خوشی ہوئی اور میرے اندر بھی خواہش پیدا ہوئی کہ ادبی شخصیات کے انٹرویو لیا کروں پھر کچھ مصروفیات کی وجہ سے خواہش اندر کی اندر ہی رہ گئی
میرے ایک ادبی دوست ہیں پروفیسر جاوید صدیق بھٹی ان کا تعلق لاہور سے ہے ایک دن انہوں نے فون پر مجھ سے پوچھ لیا کیا آپ نے آج تک کسی کا انٹرویو لیا ہے تو میں نے کہا لیا تو نہیں پر ارادہ ہے بس اُس کے بعد انٹرویو کا سلسلہ شروع کر دیا الحمدوللہ بڑی کامیابی ملی ہے ۔
سوال : کتاب کی اہمیت کیا ہے ؟ اِس پر تھوڑی روشنی ڈالیں ؟
جواب : کتاب ایک بہترین ریکارڈ ہے جو صدیوں تک محفوظ رہتا ہے کتاب بہترین دوست ہے ۔ کتاب بھی ایک قسم کی مخلوق ہے جو انسان کے اندر سے نکلتی ہے اور ہزاروں لوگوں کو فوائد پہنچاتی ہے انسان خود کو تبدیل کر لیتا ہے آج کل انٹرنیٹ سوشل میڈیا فیس بُک واٹس ایپ کے گروپ کے ذریعے پی ڈی ایف کی صورت کتاب بہت سارے ممالک میں پہنچ جاتی ہے ہم سب مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اللّٰہ پاک ہر چیز پر قادر ہے اپنے کلام کو کسی بھی ذریعے سے محفوظ کر سکتا تھا مگر کتاب کی صورت میں محفوظ کیا
ہمارے دوست گستاخ بخاری مرحوم ( جھنگ) کہا کرتے تھے آپ کسی کو قیمتی گاڑی بطور تحفہ دے دیں اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی سو روپے کی کتاب کی اہمیت ہے کیونکہ کتاب میں علم ہوتا ہے علی شاہ ، مرحوم (منکیرہ بھکر) کہا کرتے تھے کتاب آدھا استاد ہے ۔ کتاب بوطیقا میں ارسطو لکھتے ہیں ہمیشہ کتابوں نے ہی دنیا پر حکومت کی ہے ۔
سوال : آپ نے بہت سارے انعامات حاصل کئے ہیں ان پر کچھ کہنا پسند کریں گے ؟
جواب : جی ضرور میں ان تمام ادبی تنظیموں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے ادبی کام کو سراہا میری حوصلہ افزائی کی گولڈ میڈلز ، شیلیڈ ، اسناد ، کیش اور دیگر انعامات سے نوازا ۔
کچھ یوں ہیں ۔
1 گولڈ میڈل ، منجانب ادب سرائے انٹرنیشنل (لاہور) 10 دسمبر 2018ء
2 حسنِ کارکردگی اول ایوارڈ ، منجانب شاخِ ادب فیض پور خرد انصاری فاؤنڈیشن پاکستان (شیخو پورہ)14 مارچ 2019ء
3 نعت ایوارڈ ، منجانب عشقِ لہر ادبی انجمن (لاہور) 24 مارچ 2019ء
4 ڈاکٹر یاسین جاوید ادبی ایوارڈ ، منجانب کاروانِ بیدل (جھنگ) 30 مارچ 2019ء
5 گولڈ میڈل ، منجانب بھیل ادبی سنگت انٹرنیشنل (ننکانہ صاحب) 3 اگست 2020ء
6 بھیل ادبی ایوارڈ ، سند اور دیگر تحائف منجانب بھیل ادبی سنگت انٹرنیشنل (ننکانہ صاحب) 28 مارچ 2021ء
7 سند امتیاز ، منجانب بزمِ ذوقِ ادب جامکے چیمہ (سیالکوٹ) 10 جولائی 2021ء
8 ایوارڈ برائے بہترین تصنیف ، منتہائے فکر ، منجانب انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان (راولپنڈی)26 جولائی 2021ء
9 گولڈ میڈل ، سند ، کیش اور دیگر تحائف منجانب تنظیم کارِ خیر (گوجرانولہ) 21 نومبر 2021ء
10 خوشبوئے نعت ایوارڈ ، منجانب عبد الحق نعت فاؤنڈیشن پاکستان (سرگودھا) 25 دسمبر 2021ء
11 حسنِ کارکردگی ایوارڈ ، منجانب ماہنامہ اوج ڈائجسٹ (ملتان) 16 جنوری 2022ء
12 سردار ادبی ایوارڈ اور سند امتیاز منجانب بزمِ ذوقِ ادب جامکے چیمہ (سیالکوٹ) 13 مارچ 2022ء
13 نقیبی ادبی ایوارڈ 2021ء منجانب نقیبی کاروانِ ادب (فیصل آباد) 26 دسمبر 2022ء
14 سریٹفکیٹ منجانب ادارہ اشا ( ڈیرہ اسماعیل خان )3 مارچ 2023ء
15 گولڈ میڈل 2024ء منجانب المصطفیٰ فاؤنڈیشن اور مختلف ادبی تنظیموں کی طرف سے 5 اسناد ، یعقوب فردوسی ( فیصل آباد) 20 اگست 2023ء
16 اعزای سند ، منجانب ادبی سفر انٹرنیشنل (لاہور) 24 اگست 2023ء
شب
17 سندِ اِعزاز منجانب ای میگزین آئی اٹک ( اٹک ) 25 دسمبر 2023ء
18 خدمتِ ادب ایوارڈ 2024ء
منجانب راشد اینڈ ارسلان پبلیکیشز ملتان پاکستان (ملتان) 17 اپریل 2024ء
19 شھاب دھلوی ایوارڈ 2024ء
منجانب ادبی تنظیم بزمِ شمسی پاکستان (قائم پور بہاولپور) 17 اپریل 2024ء
20 گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی گرینڈ ایوارڈ
منجانب گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی 2024ء ، سرپرست اعلیٰ زیب النساء زیبی ، صدر محمد نواز گلیانہ 20 اپریل 2024ء
21 میر ببر علی انیس ادبی ایوارڈ 2024ء
منجانب گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی ، 12 جولائی 2024ء
22 سند میر ببر علی انیس 2024ء
منجانب گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی 12 جولائی 2024ء
23 اعزازی سند فخرِ وطن 2024ء
منجانب ادبی سفر انٹرنیشنل ، لاہور 10 اگست 2024ء
سوال : آپ کے اندر شعر کہنے کا شوق کب اور کیسے پیدا ہوا ؟
جواب : بچپن میں شعر کہنے کی طرف مائل ہوا تھا اُس وقت فی البدیہ اشعار کہا کرتا تھا اپنے ماموں زاد بھائی عبد الحمید ، فتح پور( لیہ) اور پھپھو زاد بھائی نذیر حسین مرحوم ( لیہ ) کو فی البدیہ اشعار سنایا کرتا تھا ۔ ریڈیو پاکستان میر پور خاص ( سندھ ) سے آپ کی فرمائش ایک پروگرام نشر ہوتا تھا اُس وقت رات ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوتا تھا اُس میں بڑے مشہور اور پرانے گانے سننے کو ملتے تھے میزبان گانے سے پہلے ایک دو اشعار پڑھا کرتا تھا اُس کا اندازِ بیاں بہت اچھا تھا اشعار بھی بڑے جاندار پڑھتے تھے جو زیادہ اچھا لگتا وہ میں حفظ کر لیا کرتا تھا ۔ روزنامہ ٫٫ خبریں ،، لاہور کے سنڈے میگزین میں کبھی کبھار منکیرہ اور نور پور تھل کے کسی نہ کسی کے انتخاب اشعار پڑھنے کو ملتے تھے تو بہت خوشی ہوتی تھی گانے بھی سنا کرتا تھا اور گنگنایا کرتا تھا کسی گانے کے دو اشعار ہوتے تو تیسرا میں اپنی طرف سے اپنی ایجاد شامل کرتا پھر گنگنانا نے میں بڑا لطف محسوس کرتا ۔
غالباً تین چار میں نے گانے بھی لکھے تھے اس طرح شوق آگے آگے بڑھتا گیا ایک دن ایسا ہوا گانے سننا لکھنا گنگنانا اور ان میں شعر شامل کرنا دل سے اللّٰہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کر لی ۔
سوال : نظم اور غزل میں کیا فرق ہے ؟
جواب : نظم تو نظم ہے غزل بھی نظم ہے یعنی منظوم ، نظم میں آپ ایک ہی پیغام دے سکتے ہیں ۔ آزاد نظم کہہ رہے ہیں تو اُس کو مختصر ہونا چاہیے اُس میں خوبصورتی بھی ہوگی اور جان بھی ہوگی طویل نظم تمہید زیادہ ہوتی ہے سامع اور قارئین کو نتیجہ کا انتظار میں بوریت محسوس ہوتی ہے ۔ مجھے شبیر ناقد کی ایک مختصر نظم یاد آرہی ہے
٫٫ رازِنمو ،،
فن بے انت سمندر
پہلے ڈوبو
پھر نکلو گے
نظم کی مختلف اقسام ہیں پابند نظم ، آزاذ نظم ، نظم معریٰ ، وغیرہ وغیرہ
مکمل غزل کے پانچ اشعار ہوتے ہیں اِس سے زیادہ جتنی مرضی طویل کرلیں ہر ایک شعر سمجھو کہ وہ نظم ہے شعر کی دو ہی تو سطریں ہوتی ہیں ۔ ہر ایک شعر میں الگ الگ پیغام ہوتا ہے ۔
سوال : نثری نظمیں اور غزلیں ان پر آپ کی رائے ؟
جواب : اِس سوال کا جواب دینے سے میں معذرت خواہ ہوں ۔
سوال : ادب کے حوالے سے آپ آگے کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟
جواب : کوشش تو میری ہے نئے سے نیا ادبی کام کر سکوں باقی جو اللّٰہ پاک کو منظور ہوگا ۔
سوال : آپ شعر و ادب کے حوالے سے کس نظریات کے کائل ہیں ؟
جواب : پیار و محبت امن بھائی چارہ اور معاشرے کی اصلاح اُس شاعری کا میں بلکل کائل نہیں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرے ۔
سوال : آپ کی شاعری کا بنیادی نقطہ نظر ؟
جواب : محمد و آلِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے فضائل و مناقب اور غمِ آلِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم یعنی میں نعت گو اور سلام گزار ہوں ۔
سوال : کیا قلم کار کے لئے ماحول کا ہونا ضروری ہے ؟
جواب : اگر ماحول میسر آجائے تو یہ بات سونے پہ سہاگا والی بات ہے ۔ لیکن جو خوبی انسان کے اندر فطری طور پر ہوتی ہے وہ باہر آکے ہی رہتی ہے ۔ رکتی نہیں بلکہ یوں کہوں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ سونے نہیں دیتی ۔
سوال : آپ بنیادی طور پر شاعر ہیں نثر کی طرف کب اور کیسے آنا ہوا ؟
جواب : شبیر ناقد کا شاعری مجموعہ ٫٫ آہنگِ خاطر ،، کا میں نے مطالعہ کیا تو میرے ذہن میں اِس مجموعہ پر تین چار پیرے لکھنے کا خیال آیا یہ بات مارچ 2014ء کی ہے میری یہ پہلی تحریر تھی رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع ہوئی لاہور کی ایک لڑکی عروج انجم نے شبیر ناقد پر ایم فل کا مقالہ لکھا تو میری تحریر سے ایک پیرا کو کوٹ کیا ایک اور لڑکے نے ایم فل کا مقالہ لکھا تو انہوں نے بھی میری تحریر سے ایک پیرا کو کوٹ کیا ان کا تعلق تونسہ شریف (ڈیرہ غازی خان) سے تھا ان کا نام غلام عباس تھا اس طرح میری پہلی تحریر نے ماشاء اللّٰہ بڑا سفر کیا حوصلہ افزائی ہوئی تو پھر لکھنا شروع کر دیا ۔
سوال : آپ نے نوحے بھی لکھے ہیں ۔ اِس طرف کیسے آئے ؟
جواب : جی ہاں نوحہ خوانی بہت دور دور تک سننے جایا کرتا تھا کبھی کبھار ماتمی سنگتوں کے ساتھ جاتا تھا جن میں مظہر عباس بھٹی (لیہ) عاطف کربلائی (بھکر) اور مقامی سنگت شہزادہ علی اکبر علیہ السّلام (منکیرہ) بھکر کے ساتھ بھی جایا کرتا تھا مقامی سنگت کے ساتھ نوحہ خوانی بھی کرتا رہا ہوں اُس وقت ٹیپ ریکارڈر اور ڈیک ہوا کرتے تھے کیسٹ لگا کر نوحے سنتا رہا جس کسی میں مقطع نہیں ہوتا تھا اُس شاعر کے نام سے مقطع لِکھ کر شامل کرتا اور اکیلا کمرے میں بیٹھ کر پڑھتا تھا پھر اِس طرح نوحے لکھنے کا شوق بھی پیدا ہو گیا ۔ پہلا نوحہ جو میں نے لکھا تھا اُس کا مطلع اِس طرح ہے ۔
توں مالک خلد بریں دا ہیں کیوں ڈسدائں باجھ کفن بابا
پوشاک لوٹیچ گئی تیڈی پامال ہے تیڈا تن بابا
کچھ دنوں بعد میرا لیہ جانا ہوا تو میں نے اپنے پھپھو زاد بھائی غلام رسول ( مرحوم) کو یہ نوحہ دکھایا تو وہ بہت خوش ہوۓکہنے لگے آپ نے نوحہ بڑا زبردست لکھا ہے اور حسینہ ہال میں جو مسجد ہے وہاں مظہر بھٹی مغرب کی نماز پڑھنے آتا ہے اُن کو نوحہ دکھائیں گے جب ان کو دکھایا تو کہا ماشاء اللّٰہ بہت اچھا کلام ہے ۔ پھر اِس نوحہ کو مختلف ماتمی سنگتوں نے پڑھا سید ظفر عباس شاہ باقری (منکیرہ) نے پڑھا جو آڈیو ، ویڈیو کیسٹوں میں دستیاب ہے ۔ میرے لکھے ہوئے دیگر نوحے بھی پڑھے گئے مگر پہلے نوحے نے بڑی مقبولیت حاصل کی ہے ۔
سید محمد سجاد حیدری اسفر مرحوم ان کا تعلق کراچی سے تھا اِن کے بزرگوں کی منکیرہ (بھکر) میں زمینیں تھی وہی یہاں رہا کرتا تھا بہت اچھی شاعری بھی کیا کرتے تھے جب انہوں نے یہ نوحہ سنا تو کہنے لگے مقبول ذکی مقبول خدا کی قسم یہ جو نوحہ آپ نے لکھا ہے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے والے الفاظ ہیں اِس پر میں نے اللّٰہ پاک کا شکر ادا کیا اور کہا شاہ جی اس میں میرا کوئی کمال نہیں یہ ذکر پاک ہی ایسا ہے جو چودہ سو سال سے چلا آ رہا ہے ۔
سوال : آپ کی ادبی تنظیم بزمِ اوجِ ادب فروغِ ادب کے لئے کیا کیا کام کر رہی ہے ؟
جواب : الحمدللہ ہماری تنظیم نے فروغِ ادب کے لئے مختلف پروگرام کروائے ہیں اور لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لئے جن میں ایوارڈ تقریب اسناد ادبی نشستیں کتب کی اشاعت مرحوم شعراء کرام کی برسی کے حوالے سے قرآن خوانی و دعا کا اہتمام کیا باقی فروغِ ادب کے لئے کوششیں جاری ہیں ۔
سوال : کیا آپ نے کبھی رباعی بھی کہی ہے ؟ اگر کہی ہے تو عنایت فرمائیں ؟
جواب : جی ضرور
اے دوست مرے یار مری جان کہاں
ذی شان مری جان میں قربان کہاں
مقبول محبت کی یہی خاص ادا بھی
اس پیار کے اقرار کیا علان کہاں
سوال : قارئین کے لئے کوئی پیغام ؟
جواب : میں تو یہی کہوں گا جو کام خلوص کے ساتھ کیا جائے وہ کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتا اُس کا صلہ اللّٰہ پاک دنیا میں بھی دے گا اور آخرت میں بھی اِن شاء اللّٰہ
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔