انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات، بھکر
ڈاکٹر اشرف کمال صاحب، بھکر ، پنجاب پاکستان
انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول، بھکر ، پنجاب پاکستان
سوال: آپ کو ملکی اور بین الاقوامی طور پر اردو برادری جانتی ہے اور آپ کی تحریروں کو پسند کی نظر سے دیکھتی ہے۔آپ کو کیسا لگتا ہے۔ ؟
جواب : سب سے پہلے میں آپ کے اس ادبی انٹرویوز کے سلسلے کو سراہوں گا جس سے ادب کے فروغ کو تقویت ملی ہے ۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو ظاہر ہے مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں اردو زبان وادب کی وجہ سے عالمی برادری کا حصہ بن گیا ہوں ۔ دوسرے ممالک میں جہاں اردو کے لیے کام ہو رہا ہے بہت سی شخصیات اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں جن سے رابطہ رہتا ہے ۔ ترکیہ سے ڈاکٹر خلیل طوقار ، جلال صوئیدان ، آسمان بیلن ، داود رہبر ، مصر سے ڈاکٹر ابراہیم ، ڈاکٹر اسامہ شیلبی ، ازبکستان سے ڈاکٹر تاش مرزا ، ایران سے ڈاکٹر علی بیات ، ڈاکٹر کیومرثی ۔ ڈاکٹر وفا یزداں منش ، جاپان سے ڈاکٹر سویامانے یاسر ، اور بھارت و بنگلہ دیش کے بہت سے اردو پڑھانے اور لکھنے والوں کے نام قابل ذکر ہیں ۔
سوال : ادب میں آغاز سے آپ کی بنیادی شناخت کیا ہے ۔؟
جواب : میری بنیادی شناخت کا سفر شاعری سے شروع ہواں ۔ جس نے میری زندگی اور خاص طور پر عملی زندگی کو بدل کر رکھ دیا ۔
سوال : کوئی ابتدائی شعر جو سراہا گیا ہو ۔؟
جی میرا ایک شعر شروع شروع ہی سے پسند کیا جاتا رہا ہے جو میری پہلی غزل کا حصہ ہے امریکہ سے معروف شاعر اور گلوکار اشرف گل صاحب نے جس کی کمپوزیشن بھی کی اور اسے گایا بھی ۔
ڈھونڈتے ہو وفا زمانے میں
تم بھی اشرف کمال کرتے ہو
سوال : آپ شاعر ہیں نثر کی طرف کیسے راغب ہوۓ ۔؟
جواب : جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو میں کہوں گا یہ کوئی لگا بندھا اصول تو نہیں کہ شاعر صرف شاعری کرے اور نثر نگار صرف نثر نگاری کرے ۔ شاعری خالصتاً تخلیقی عمل ہے جبکہ تحقیق اور تنقید میں مطالعہ کے ساتھ ساتھ طبعی رجحان کا ہونا ضروری ہے ۔ مجھے بچپن ہی سے کہانیاں اور ناول پڑھنے کا شوق رہا اس طرح نثر اور پھر تنقیدوتحقیق کی طرف راغب ہوا ۔
سوال : آپ کو نظم ونثر کی ترغیب کیسے ملی ۔؟
جواب : بچپن ہی سے شاعری اور کہانیاں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا جو ہنوز جاری ہے ۔ میرے گھر کی فضا بالکل ادبی نہیں تھی ۔ والد صاحب کا تعلق تجارت سے تھا جبکہ خاندان کے دوسرے افراد بھی ادب کی طرف رغبت نہیں رکھتے تھے ۔ مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ میں نےادیبوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کیا اور یوں تحریک ملنے لگی ۔ اور ادب سے متعلق دوستوں کی اچھی خاصی تعداد مجھے میسر آگئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی سختیوں اور سخت حالات نے میرے تخلیقی سفر کو بہت مہمیز کیا ۔
نظم و غزل کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ادبی رپورٹس مرتب کرتے کرتے نثر نگاری کی صلاحیت سے روشناس ہوا ۔ مجھے ادبی ذوق اور شوق سفر نے سائنسی قلمرو سے نکال کر ادب کے حلقے تک پہنچا دیا ۔
سوال : ماشاءاللہ آپ نے ادبی حوالے سے اپنا خوب نام روشن
کیا ہے ۔ کچھ اپنی ادبی مشکلات کے بارے بتائیے گا ۔؟
جواب : مضافات میں رہنے والوں کا ہمیشہ ہی سے یہ المیہ رہا ہے کہ انہیں منظر عام پر آنے کے لیے جگر کا خون لگانا پڑتا ہے ۔
مجھے بڑوں شہروں اور مرکز سے دوری کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ۔ لاھور ۔ میں اگر ایک ادیب تھوڑا بہت لکھنے کے قابل ہوتا ہے تو اس کو میڈیا پر آسانی سے تشہیر کا موقعہ مل جاتا ہے جبکہ چھوٹے شہروں میں یہ بہت مشکل ہے ۔ البتہ اب سوشل میڈیا کی وجہ سے اب اظہار آسان ہوا ہے ۔
سوال : ڈاکٹریٹ کا سفر اتنا دشوار گزار کیوں ہے ۔؟
جواب : وہ جس طرح کہتے ہیں کہ سونا آگ میں کندن ھوتا ہے اسی طرح ایک اعلیٰ معیار کو پانے کے لیے کسی بھی سکالرز کو بہت کڑے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ کسی بھی اعلیٰ ڈگری کے حصول کے لیے محنت بھی زیادہ کرنا پڑتی ہے ۔
سوال : آپ کی کم عمری کے باوجود کئی یونیورسٹیوں سے آپ کی تخلیقات اور تصنیفات پر مقالات لکھے گئے ۔ اس کے بارے قارئین کو کیا کہنا چاہیں گے۔۔۔۔۔؟
جواب : عمر کی حد بھی اپنی جگہ لیکن میرے بے لیکن میرے کام کی مقدار اور معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوان محققین نے مقالات لکھے ۔ 13 مقالات لکھے جا چکے ہیں 3 لکھے جا رہے ہیں۔۔
سوال : آپ کی پسندیدہ صنف شعر کون سی ہے ۔؟
جواب : غزل
سوال : صنفِ ادب میں غزل کا کیا مقام ہے ۔۔۔۔۔؟
جواب : ادب میں غزل کا وہی مقام ہے ۔ جو انسانی جسم میں دل کا ۔ یہ ایک خوبصورت تخلیقی صنف ہے جس میں زندگی خے ہر شعبہ سے متعلق معاملات اور مضامین کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے ۔
سوال : آج کل مشاعروں میں ایسا کلام بھی سننے کو ملتا ہے ۔ جس کا ادب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا ایسا کیوں ہے۔۔۔۔۔؟
خواب : جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ سوشل میڈیا نے شاعری کو تبدیل کیا ہے ۔ اصل میں سوشل میڈیا نے ادب کے تصوراتی عمل کو تصویریں ادب میں تبدیل کر کے اور گلیمر کا تڑکا لگا کر نئے شاعروں کو تخلیقی اظہار کی طرف راغب کیا ۔صرف یہی نہیں بلکہ اسے سستی شہرت اور مفادات کے حصول کا بھی ذریعہ بنا دیا ۔ زیادہ سے زیادہ نام بنانے کی بھوک اور شہرت کے بھوت نے شاعری کی معیار کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ اس لئے ہمیں لگتا ہے کہ بہت سے لوگ جو حکومت بندی کر رہے ہیں اس کا تخلیقیت سے کوئی تعلق نہیں ۔ جی مشاعرے میں زیادہ تر ایسے متشاعر بھی آجاتے ہیں جنھیں شاعری کی الف ب تک نہیں معلوم ۔
سوال : آج کل ادب کی پرواز کافی بلند دکھائی دے رہی ہے ۔ اس پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں۔۔۔۔۔؟
جواب : ادب کی پرواز نیٹ اور فیس بک و واٹس ایپ اور الیکٹرانکس میڈیا کی وجہ سے ترقی کرتا نظر آتا ہے ۔ ھم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی تیز ترین ترقی کے ساتھ ساتھ ادبی ترقی کا پہیہ بھی تیزی سے گھومنے لگا ہے ۔
سوال : مضافات سے تعلق تکنے والے نئے شعراء و ادباء کو نام بنانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے ۔؟
جواب : مضافات کی سر زمین تخلیقی حوالے سے تو بہت زرخیز ہے تاھم بڑی وجہ یہاں کی سر زمین پر سادہ طرز زندگی اور انسانی اقدار کا گہرا اثر ہے ۔ ان کا اپنا ایک تہذیبی مزاج اور شعری رویہ ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ جو شعراء و ادباء اپنی تہذیب اور اپنی مٹی سے جڑے یوئے ہوتے ہیں وہ اپنی تہذیب اور علاقے کے نمائندے بھی ہوتے ہیں ۔ سو یہی وجہ ہے کہ مضافات کی شاعری میں پرخلوص رشتوں کا رس اور سچے جذبوں کا رچاؤ پایا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب ان کا ادب بھی منظر عام پر آرہا ہے جو پہلے لوگوں کی نظر سے چھپا ٹوٹا تھا ۔ میرا مشورہ ہے کہ دنھیں اپنی تخلیقات کی تشہیر کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مطالعہ کے دامن کو بھی وسیع کرنا چاہئے ۔
سوال : مستقبل نظم کا ہے یا نثر کا ۔؟
جواب : دونوں کا ہے ۔ گو کہ یہ کہا جاتا ہے کہ نظم شاید زیادہ اہمیت اختیار کر لے لیکن میں کہوں گا کہ ادب بحیثیت مجموعی شائستگی ، نزاکت اور سادگی کی طرف رواں دواں ہے ۔ مشکل پسندی اور پیچیدہ اسلوب کی اب کوئی گنجائش نہیں ۔ مستقبل میں سلاست اور روانی تحریر اور سادہ طرز نگارش کو ہی دوام حاصل ہو گا ۔
سوال : کوئی پیغام جو ادب کے قارئین کو دینا چاہیں ۔ ؟
جواب : میں وہی کہوں گا کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ۔ اردو سے محبت کیجئے ادب سے محبت کیجئے اور اچھے ادب کو پڑھیں بھی یاد بھی رکھیں اور آگے بھی پہنچائیں ۔
سوال : آخر میں آپ سے کچھ تازہ اشعار سنانے کی فرمائش ہے ۔
جواب : جی ضرور
ایک تازہ غزل کے چند اشعار آپ کی سماعتوں کے لیےحاضر ہیں ۔
بچھڑ کے ملنے کی کوئی دعا تو دے مجھ کو
ذرا سا جاتے ہوئے حوصلہ تو دے مجھ کو
وہ حبس ہے کہ کہیں سانس ہی نہ گھٹ جائے
ہلا کے ہاتھ ذرا سی ہوا تو دے مجھ کو
تو مسکرا ئے تو شاید کہ میں سنبھل جاؤں
اے زندگی تو کوئی آسرا تو دے مجھ کو
زمیں بتا تو کہاں تک مجھے گھمائے گی
میں تیرے ساتھ چلوں راستہ تو دے مجھ کو
قریب آ کہ میں محسوس کر سکوں تجھ کو
تو میرے ہونے کا کچھ تجربہ تو دے مجھ کو
مقبول ذکی مقبول
بھکر ، پنجاب پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔